حضرت نوح کی تاریخی کشتی
حضرت نوح کی کشتی لکڑی سے بنائی گئی تھی۔ بعد کو وہ اگر کسی کھلی جگہ پر رہتی تو بہت جلد وہ بوسیدہ ہو کر ختم ہوجاتی۔ مگر جودی کا علاقہ سخت سردی کا علاقہ تھا۔ کشتی کے ٹھہرنے کے بعد یہاں مسلسل طورپر برف باری(snow fall) کا سلسلہ جاری رہا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشتی كے اوپرگلیشير کی موٹی تہہ جم گئی۔ اس طرح کشتی برف کے موٹے تودے کے نیچے دب کر فرسودگی کے عمل سے محفوظ رہی۔
فطرت کا ایک قانون ہے جس کو ارضیات کی اصطلاح میں فاسلائزیشن (fossilization) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ فاسل (fossil) سے بنا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب کوئی چیز زمین کے نیچے لمبی مدت تک دبی رہے تو وہ مخصوص کیمیائی عمل (chemical process) کے ذریعے تدریجی طورپر اپنی ماہیت تبدیل کرليتي هے، وہ لکڑی یا ہڈی کے بجائے پتھر جیسی چیز بن جاتي هے۔ فاسلائزیشن کا یہ عمل کم وبیش ایک ہزار سال میں پورا ہوتا ہے اور جب یہ عمل پورا ہوجائے تو وہ چیز اپنی اصل صورت کو باقی رکھتے ہوئے پتھر جیسی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ اِس طرح وہ اِس قابل ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے وجود کو ہمیشہ باقی رکھے۔
اللہ تعالیٰ کو اپنے منصوبے کے مطابق، حضرت نوح کی کشتی کو محفوظ رکھنا تھا۔ اُس وقت جو سیلاب آیا، وہ ایک بڑے علاقے میں پھیلا ہوا تھا، غالباً دجلہ وفرات (عراق) کے علاقے سے لے کر ترکی کی مشرقی سرحد تک۔ اس سیلاب کے اوپر کشتی بہہ رہی تھی۔ خدا کے فیصلے کے تحت کشتی سیلاب میں بہتے ہوئے جودی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئی۔ یہاں لمبی مدت تک وہ عمل جاری رہا جس کے نتیجے میں پوری کشتی فاسل (fossil) میں تبدیل ہوگئی۔