خدائی منصوبے کی تاریخی شہادت
حضرت نوح کی کشتی ہزاروں سال تک گلیشير کے نیچے محفوظ رہی۔ فطرت کے قانون کے مطابق، کشتی پوری کی پوری ایک فاسل (fossil) بن گئی۔ اِس کے بعد ابتدائی طورپر انیسویں صدی عیسوی كاآخری زمانہ آیا، جب کہ گلوبل وارمنگ (global warming) کا دور شروع ہوا۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں یہ ہوا کہ پہاڑوں کے اوپر جمے ہوئے برف کے بڑے بڑے تودے (گلیشير) دھیرے دھیرے پگھلنے لگے۔ آخرکار یہ ہوا کہ جمي هوئي برف کا بڑا حصہ پگھل گیا اور وه پانی کی صورت میں بہہ کر سمندروں میں چلا گیا۔ اس کے بعد برف کے نیچے ڈھکی ہوئی کشتی کھل کر سامنے آگئی۔
دابّہ سے مراد یہی کشتی نوح ہے۔ اس سلسلے میں ایک روایت کے الفاظ بہت با معنی ہیں، جس میں کہاگیا ہے : أوّل ما یبدوا منها رأسها (التفسیر المظهری 7/133)۔يعني دابّہ جب نكلے گا توسب سے پہلے اس کا سر ظاہر ہوگا۔
یہ تمثیل کی صورت میں اُس واقعےکا نہایت درست بیان ہے جو کشتیٔ نوح کے ساتھ پیش آیا۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جب برف پگھلنے لگی تو فطری طورپر کشتی کے اوپر کا حصہ کھلا اور پھر دھیرے دھیرے پوری کشتی سامنے آگئی۔
کشتی نوح پر غور کیجئے تو اس کا پورا معاملہ ایک خدائی منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔ — حضرت نوح کی قوم کی ہلاکت کے لیے ایک بڑے سیلاب کا طریقہ اختیار کرنا، پھر کشتی نوح کا ایک متعین رخ پر سفر کرتے ہوئے جودی پہاڑ پر پہنچنا، پھر اس کا گلیشير کے نیچے دب جانا، پھر فاسلائزیشن کے عمل کے ذریعے اس کا مستقل طورپر محفوظ ہوجانا، پھر گلوبل وارمنگ کے ذریعے اس کا کھل کر سامنے آجانا، پھر بیسویں صدی کا دور آنا، جب کہ پرنٹنگ پریس اور جدید کمیونی کیشن اور عالمی سیاحت اور اِس طرح کے دوسرے اسباب کے نتیجے میں یہ ممکن ہوگیا کہ کشتی نوح کو پیغمبروں کی تاریخ کے ایک پوائنٹ آف ریفرنس کے طورپر لیا جائے اور جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے پیغمبروں کی دعوت کو سارے عالم تک پہنچا دیا جائے۔ کشتی نوح کے بارے میں یہی وہ حقیقت ہے جس کا اشارہ قرآن کے اِن الفاظ میں کیا گیا ہے:بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا (11:41)۔