اصحابِ رسول کا رول

پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے بارے میں  قرآن میں  یہ آیت آئی هے:مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (48:29)۔ محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ منکروں پر سخت ہیں اور آپس میں  مہربان ہیں۔ تم ان کو رکوع میں  اور سجدہ میں  دیکھو گے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی کی طلب میں  لگے رہتے ہیں۔ ان کی نشانی ان کے چہروں پر ہے سجدہ کے اثر سے، ان کی یہ مثال تورات میں  ہے۔ اور انجیل میں  ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے کھیتی، اس نے اپنا انکھوا نکالا، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ اور موٹا ہوا، پھر اپنے تنے پر کھڑا ہوگیا، وہ کسانوں کو بھلا لگتا ہے تاکہ ان سے منکروں کو جلائے۔ ان میں  سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا، اللہ نے ان سے معافی کا اور بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔

اس آیت میں  اصحاب رسول کے بارے میں  بتایا گیا ہے کہ وہ منکروں پر شدید ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ منکروں پر سخت گیر ہوتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ منکروں کا اثر قبول نہیں کرتے۔ یعنی وہ مضبوط سیرت (strong character) کے لوگ ہیں۔ ان کی یہ صفت ان کو اس کمزوری سے بچاتی ہے، جس کو قرآن میں  مضاہاۃ کہا گیا ہے (9:30)۔ یعنی اپنے دین کے معاملے میں  خارجی کلچر کا اثر قبول کرلینا۔

پھر اصحاب رسول کی یہ صفت بیان کی گئي هے کہ وہ آپس میں  مہربان ہیں۔ یہ اخلاقی برتاؤکی بات نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد ان کا طاقت ور باہمی اتحاد ہے۔ وہ کسی اختلاف کو شکایت (complaint) کامعاملہ نہیں بناتے، بلکہ اس کو نظر انداز کرکے ، اپنے متحدہ جد و جہد کو پوری طرح باقی رکھتے ہیں۔ کوئی ناموافق بات کبھی ان کے باہمی اتحاد کو توڑنے والی نہیں بنتی۔

اس کے بعد تراھم الخ کا جملہ ہے۔ یہ جملہ ان کی داخلی ربانی حالت کو بتاتا ہے۔ ان کا یہ ربانی مزاج اس بات کا ضامن ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کی رضا والے راستے پر قائم رہیں۔ ان کی داخلی اسپرٹ کبھی کمزور نہ ہونے پائے۔ اصحاب رسول کی صفت پیشگی طورپر تورات میں  بتادی گئی تھی۔موجودہ تورات میں  اس کے لیے دس ہزار قدوسیوں (ten thousand saints) کا لفظ موجود ہے (استثناء33:2:) ۔

انجیل کی تمثیل میں  اصحاب رسول کا ایک مزید رول یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تاریخ میں  ایک زرع یا بیج (seed)ڈالنےكا کام کریں گے، جو آخر کار بڑھ کر ایک مکمل درخت بن جائے گا۔ یہاں تمثیل کی زبان میں  یہ بات کہی گئی ہے کہ اصحاب رسول اپنی غیر معمولی جدو جہد کے ذریعے انسانی زندگی میں  ایک تاریخی عمل (historical process) جاری کریں گے، جو آخر کار ایک عظیم انقلاب تک پہنچے گا۔ اس انقلاب کے دو خاص پہلو تھے۔ان دونوں پہلووں کو قرآن میں  اختصار کی زبان میں  بتایا گیا ہے۔

صحابہ اور تابعین کے اس رول کو قرآن کی درج ذیل آیت کامطالعہ کرکے سمجھا جاسکتا ہے: الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (22:41)۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں  قدرت دیں تو نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں، نیک کام کرنے کا حکم دیں ،برے کاموں سے منع کریں، اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں  ہے۔

قرآن کی اس آیت میں  تمکین فی الارض سے مراد سیاسی استحکام (political stability)  ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صحابہ اور تابعین کی جماعت کو جب پولیٹکل استحکام ملا تو اس کو انھوں نے انھیں مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ مقاصد تین تھے— عبادت، زکوٰۃ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ یہاں ان تینوں سے مراد انفرادی عمل نہیں ہے، بلکہ اجتماعی زندگی میں  ان کا نظام قائم کرنا ہے۔

عبادت سے مراد مسجد کا نظام اور حج کا نظام قائم کرنا ہے۔ نیز اس میں  دینی تعلیم کا نظام بھی توسیعاً شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی استحکام کو انھوں نے کسی سیاسی نشانہ (political goal) کے لیے استعمال نہیں کیا، بلکہ اہل ایمان کی دینی زندگی کو منظم صورت میں  قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس تنظیم میں  زکوۃ کا نظام بھی شامل ہے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے مراد کوئی سیاسی نظام نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دین کے تقاضوں کو منظم انداز (organised way) میں  انجام دینا۔ مثلا قرآن کو محفوظ کرنا، حدیث کی جمع و تدوین، اسلامی فقہ کو مرتب کرنا، اور دوسرے ان غیر سیاسی کاموں کو انجام دینا، جس کے نتیجےميں بعد کے زمانے میں  امت مسلمہ کا ایک منظم دینی ڈھانچہ قائم ہوا۔ اور جو اب تک کسی نہ کسی صورت میں  عملا ًموجود ہے۔

قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اجرِ عظیم ( great reward) سے مرادثوابِ عظیم نہیں ہے، بلکہ نتیجہ عظیم ہے، جو بعد کی تاریخ میں  پیش آیا۔اس عظیم نتیجہ کو قرآن کی ایک آیت میں  اس طرح بیان کیا گیا ہے: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں  بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔

صحابہ اور تابعین کی کوششوں سے اسلام کا مکمل اظہار ہوا۔ لیکن یہ اظہار روایتی دور (traditional age) کے اعتبار سے تھا۔ اسلام کا ایک اور اظہار ابھی باقی تھا۔ اور وہ تھا عقلی فریم ورک (rational framework) کے مطابق، اسلام کا اظہار۔ اس مقصد کے لیے تاریخ میں  ایک نیا انقلاب لانا ضروری تھا۔ یہ انقلاب وہی ہے جو بعد کے دور میں  سائنٹفک انقلاب (scientific revolution) کی صورت میں  ظاہر ہوا۔ یعنی فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کو دریافت کرنا۔اور اس کے مطابق، تاریخ میں  ایک نیا دور لانا۔ یہ دور عملاً وہی ہے جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔

اس دوسرے دور کا آغاز مسلمانوں نے اپنے سياسي استحكام كے دور میں  کیا، لیکن اس کی تکمیل بعد کے زمانے میں  مغربی قوموں کے ذریعے انجام پائی۔ اس انقلاب کا پراسس مسلم عہد میں  شروع ہوا، لیکن اس کی تکمیل بعد کے زمانے میں  جدید تہذیب (modern civilization) کی صورت میں  دنیا کے سامنے آئی۔

دوسری قوموں کے ذریعے اس کام کا انجام پانا، احادیثِ رسول میں  پیشگی طور پر بتا دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں  حدیث کی کتابوں میں  جو روایات آئی ہیں، ان میں  سے ایک روایت یہ ہے: إِنَّ اللهَ جَلَّ وعَزَّ لَيُؤَيِّدُ الإِسْلَامَ بِرِجَالٍ ‌مَا ‌هُمْ ‌مِنْ ‌أَهْلِهِ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ یعنی اللہ اس دین کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا، جو اہل اسلام میں  سے نہ ہوں گے۔ جدید تہذیب جس کو مغربی تہذیب کہا جاتا ہے، وہ حقائقِ فطرت کے انکشاف پر مبنی ہے۔ قرآن کی زبان میں  اس کو آفاقی تہذیب (41:53) کہا جاسکتا ہے۔ اس تہذیب میں  اگر بعض غیر مطلوب اجزاء شامل ہیں، تو وہ براہ راست طور پر تہذیب کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ وہ مغربی کلچر کا حصہ ہيں۔ مثلاً برہنگی (nudity) وغیرہ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom