ترکی کی اسلامی تاریخ
اسلام سے پہلے ترکی کے باشندوں کی اکثریت مسیحی مذہب (Christianity)کو ماننے والی تھی۔ ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں یہاں اسلام داخل ہوا۔ اِس کے بعدیہاں مسلسل اسلام کا فروغ ہوتا رہا۔ اِس وقت تركي كي آبادي میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 99 فی صد ہے۔
ترکی میں اسلام اور مسلمانوں کا استحکام بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچا کہ یہاں ایک طاقتور مسلم سلطنت قائم ہوگئی۔ اس کو عثمانی خلافت (Ottoman Empire)کہاجاتا ہے۔ یہ سلطنت 1299 ء میں قائم ہوئی، اور 1924 ء تک باقی رہی۔ عثمانی سلطنت کے عروج کے زمانے میں اس میں ایشیا اور یورپ کے 12 ملک شامل تھے۔ استانبول کو عثمانی حکمراں سلطان محمد الفاتح (وفات1481 ء) نے 1453 ء ميں فتح کیا۔ اُس وقت اس کا نام قسطنطنیہ تھا۔ بعد کو وہ استانبول کے نام سے عثمانی سلطنت کی راجدھانی بن گیا۔
قدیم زمانہ مبنی بر شمشیر سیاست کا زمانہ تھا۔ اُس زمانے میں کسی مشن کو مضبوطی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے مستحکم سیاسی بنیاد (political base) درکار ہوتی تھی۔ عثمانی سلطنت نے اسلامی مشن کو یہی مضبوط سیاسی بنیاد فراہم کی۔ اِس قسم کی مضبوط سیاسی بنیاد کے بغیر قديم زمانے میں اسلام کو فروغ حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ عثمانی ترکوں نے ایک مدت تک، نہ صرف ترکی، بلکہ مسلم دنیا کے بڑے حصے کو سیاسی دبدبه كي يهي بنیاد فراہم کی۔ اِس اعتبار سے عثمانی سلطنت کا کارنامہ ناقابلِ انکار ہے۔لیکن بیسویں صدی میں عالمی حالات مکمل طورپر بدل چکے تھے۔ اب نئے حالات کے مطابق، سیاست کا رول ثانوی (secondary) بن چکا تھا۔ اب ترکی میں اسلام کے فروغ کے لیے ضرورت تھی کہ وہاں غیر سیاسی دائرے میں ایک مضبوط تعمیری بنیاد قائم کی جائے۔
قدیم زمانہ سیاسی اقتدار کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانہ اس کے بجائے اداروں (institutions) کا زمانہ ہے، یعنی غیر سیاسی شعبوں میں پُرامن تنظیمیں بنانا، مثلاً تعلیم، صحافت، سماجی ترقی کے ادارے، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا استعمال، وغیرہ۔ نئے دور کے مواقع کو استعمال کرنے میں زوال یافتہ سیاسی نظام ایک رکاوٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اتاترک کا کمال ازم اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اِسي نوعیت کا ایک آپریشن تھا۔ اِس کے نتیجے میں ترکی میں کھلے پن (openness) کا نیا دور آیا، اور یہ ممکن ہوگیا کہ نئے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اسلام کے حق میں غیر سیاسی دائرے میں ایک تعمیری بنیاد قائم کی جائے۔
مابعد اتاترک دور (post-Ataturk period) میں ترکی میں کچھ ایسے رہنما اٹھے، جو نئے دور کے مواقع کو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں منظم طورپر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ جيسا كه عرض كيا گيا، اِن نئے تُرک رہنماؤں میں بدیع الزماں سعیدنورسی خاص اهميت ركھتےهيں۔ نئے ترکی کی تعمیر میں ان کا نمایاں حصہ ہے۔
بدیع الزماں سعید نورسی1876 ءمیں پیدا ہوئے، اور 1960 ءمیں اُن کا انتقال ہوا۔ انھوں نے جزئی طورپر سیاست میں حصہ لیا، لیکن جلد ہی اُن پر سیاست کی برائی واضح ہوگئی اور انھوں نے یہ کہہ کر سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی: أعوذ باللہ من الشیطان ومن السیاسۃ۔ یعنی میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، شیطان سے اور سیاست سے۔
سعید نورسی کی تحریک کو ’نورتحریک‘ کہاجاتا ہے۔ اُن کا طریقہ پرامن دائرے میں غیرسیاسی انداز میں کام کرنا تھا۔ اِس طرح کام کرکے وہ مسلمانوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانا چاہتے تھے۔ وہ دورِجدید میں مسلمانوں کے احیائے نو کے علم بردار تھے۔ سعید نورسی کے ایک سیرت نگار کے الفاظ میں ، ان کا مشن اسلامی تہذیب کی تعمیر نو (rebuilding of Islamic civilization) تھا۔ سعیدنورسی کے پیروؤں کی تعداد کئی ملین تك پہنچتی ہے۔
Said Nursi (1876-1960), the most influential Islamic scholar in modern Turkish history, is the inspiration behind the hugely popular Nur movement. Guided by his masterwork, the Risale-i Nur, Nursi's followers shun political ambition, focusing instead on a revival of personal faith through study, self-reform and service of others. Nursi lived through the upheavals that led to the establishement of a vigorously secular Turkish republic in place of the dismembered Ottoman caliphate. Nursi was educated through the medrese system in the tradional Islamic disciplines but also mastered modern Western philosophical and scientific ideas in order to address the challenges Muslims face now. In some ways the Risale-i Nur functions as an interpretation of the Qur’an for the contemporary world, millions within and outside Turkey have found solace in the interpretation.
(www.oxcis.ac.uk/publication/said-nursi)