اعليٰ ذريعهٔ علم
يهي بے اطميناني جديددور كے تمام باشعور انسانوں كا پيچھا كيے هوئے هے۔ ان كي اكثريت اگر چه مذهب كو ماننے كے ليے تيار نهيں هے، مگر انھوں نے يه بات مان لي هے كه جس سائنسي ترقي كو انھوں نے انسانيت كے مسئله كا حل سمجھ ليا تھا، وه انسانيت كے مسئله كا حل نه تھا۔ برٹرينڈ رسل نے مغربي فكر وفلسفه پر ايك ضخيم كتاب لكھي هے۔ اس كتاب كے آخر ميں هم اس كے اعتراف كے حسب ذيل كلمات پاتے هيں:
(Western philosophers) confess frankly that the human intellect is unable to find conclusive answers to many questions of profound importance to mankind, but they refuse to believe that there is some 'higher' way of knowledge, by which we can discover truths hidden from science and the intellect. (Bertrand Russell, A History of Western Philosophy, 1979, p. 789)
مغربي فلسفي كھلے طور پر اقرار كرتے هيں كه انساني عقل كے بس سے باهر هے كه وه ان بهت سے سوالات كا قطعي جواب پاسكے جو انسانيت كے ليے بے حد اهميت ركھتےهيں۔ مگر وه اِس كو ماننے سے انكار كرتے هيں كه سائنس كے علاوه علم كا كوئي اور بلند طريقه هے جس كے ذريعه سے هم ان سچائيوں كو دريافت كرسكيں جو سائنس اور عقل كي دسترس ميں نهيں آتيں۔
آج كے انسان كو يهي بتانا اس كو سب سے بڑي چيز دينا هے كه هاں، يهاں ايك بلند تر طريقه موجود هے جس كے ذريعه نامعلوم كو معلوم كيا جاسكے۔ اور وه الهام خداوندي هے۔ اور يه الهام خداوندي جهاں اپني محفوظ شكل ميں موجود هے وه قرآن هے۔
قرآن پوري طرح اپني اصل حالت ميں محفوظ هے اور تقريباً ڈيڑھ هزار برس سے مسلسل اپني صداقت كو ثابت كررها هے، اس موضوع پر راقم الحروف نے اپني كتاب ’’عظمت قرآن‘‘ اور دوسري كتابوں ميں گفتگو كي هے۔ اس كي تفصيل ان كتابوں ميں ديكھي جاسكتي هے۔