امتِ وسط
امتِ محمدی کی اس ذمے داری کو قرآن کی سورہ نمبر 2میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (2:143)۔ یعنی اس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا:
Thus We have made you a middle nation, so that you may act as witnesses for mankind, and the Messenger may be a witness for you.
امت ِ وسط کا مطلب بیچ کی امت (middle ummah) ہے۔ یعنی امتِ محمدی کی حیثیت خاتم النبیین اور بعد کی انسانی نسلوں کے درمیان بیچ کے نمائندہ کی ہے۔ اللہ کے دین کو خاتم النبیین سے لینا، اور اس کو بعد کی نسلوں تک کسی اجرت کی امید کے بغیر قیامت تک پہنچاتے رہنا۔ اس پہنچانے کا مطلب صرف اعلان (announcement) نہیں ہے۔ بلکہ ضروری ہے کہ اس کو قول بلیغ (النساء، 4:63)کی زبان میں پہنچایا جائے، یعنی ایسے اسلوب میں جو لوگوں کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
قرآن کی اس تعلیم کے مطابق موجودہ دنیا ہمیشہ کے لیے دارالدعوۃ ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کے مطابق، نبوت محمدی اور دوسرے انسانوں کے درمیان جو نسبت ہے، وہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ امت کی حیثیت شاہد کی ہے، اور دوسرے انسانوں کی حیثیت مشہود(البروج، 85:3)کی ۔ اس نسبت کو دوسرے الفاظ میں داعی اور مدعو کی نسبت کہا جاسکتا ہے۔
امت محمدی کی اس دعوتی ذمے داری کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: المؤمنون شهداء الله في الأرض (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2642)۔ یعنی اہل ایمان زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔ شہادت کا یہ کام خالص پیغمبرانہ طریقے پر انجام دینا ہے۔ یہ ایک خدائی کام ہے، جس میں کسی سیاسی یا قومی یا مادی مقصد کو شامل کرنا ہرگز جائز نہیں۔ اس کام میں کسی اور مقصد کو شامل کیا جائے تو وہ قرآن کے الفاظ میں رکون ہوگا، جو انسان کو اللہ کے یہاں سخت مواخذہ کا مستحق بنا دیتا ہے۔آيت كے الفاظ يه هيں:وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ۙ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(11:113) يعني ان كي طرف نه جھكو جنھوں نے ظلم كياورنه تم كو آگ پكڑ لے گي اور الله كے سوا تمھارا كوئي مددگار نهيں، پھر تم كهيں مدد نه پاؤگے۔