اعتبار پیدا کیجئے
ایک آدمی نے کاروبار شروع کیا اس کے پاس مشکل سے چند سوروپے تھے۔ وہ کپڑے کے ٹکڑے خرید کر لاتا اور پھیری کرکے اس کو فروخت کرتا۔ کچھ کام بڑھا تو اس نے ایک دکان والے سے اجازت لے کر اس کی دکان کے سامنے پٹری پر بیٹھنا شروع کردیا۔
کپڑے کے جس تھوک فروش سے وہ کپڑا خریدتا تھا اس سے اس نے نہایت اصول کا معاملہ کیا۔ دھیرے دھیرے اس تھوک فروش (wholesaler)کو اس آدمی کے اوپر اعتبار ہوگیا۔ وہ اس کو ادھار کپڑا دینے لگا۔ جب آدمی ادھا ر پر کپڑے لاتا تو اس کی کوشش رہتی کہ وعدہ سے کچھ پہلے ہی اس کی ادائیگی کردے۔
وہ اسی طرح کرتا رہا۔ یہاں تک کہ تھوک فروش کی نظر میں اس کا اعتبار بہت بڑھ گیا۔ اب وہ اس کو اور زیادہ کپڑے ادھار دینے لگا۔ چند سال میں یہ نوبت آ گئی کہ تھوک فروش اس کو پچاس ہزار اور ایک لاکھ روپے کا کپڑا بے تکلف دیدیتا۔ وہ اس کو اس طرح مال دینے لگا جیسے کہ وہ اس کے ہاتھ نقد فروخت کررہا ہو۔
اب آدمی کا کام اتنا بڑھ چکا تھا کہ اس نے ایک دکان لے لی۔ دکان بھی اس نے نہایت اصول کے ساتھ چلائی۔ وہ تیزی سے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے شہر میں کپڑے کے بڑے دکانداروں میں شمار کیا جانے لگا۔
اس دنیا میں بڑی دولت روپیہ نہیں، اس دنیا میں سب سے بڑی دولت اعتبار ہے۔ اعتبار کی بنیاد پر آپ اسی طرح کوئی چیز لے سکتے ہیں جس طرح نوٹ کی بنیاد پر کوئی شخص بازار سے سامان خریدتا ہے۔ اعتبار ہر چیز کا بدل ہے۔
مگر اعتبار زبانی دعووں سے قائم نہیںہوتا اور نہ اعتبار ایک دن میں حاصل ہوتا ہے۔ اعتبار قائم ہونے کی صرف ایک ہی بنیاد ہے اور وہ حقیقی عمل ہے۔ خارجی دنیا اس معاملہ میں انتہائی حدتک بے رحم ہے۔ لمبی مدت تک بے داغ عمل پیش کرنے کے بعد ہی وہ وقت آتا ہے کہ لوگ آپ کے اوپر اعتبار قائم کریں جو اعتبار مذکورہ تھوک فروش نے ایک پھیری والے کے اوپر قائم کیا تھا۔