اتحاد کا طریقہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا یہ قاعدہ ہے کہ باری باری ہر معیاد پر مختلف علاقائی گروہوں (Regional groups)کو صدارت کا موقع دیا جاتا ہے۔ پچھلی میعاد میں لا طینی امریکا کو صدر مقرر ہونا تھا۔ مگر جب انتخاب کا مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہوا تو لاطینی امریکا کے ممالک کسی ایک ممبرملک کی صدارت پر متفق نہ ہو سکے۔ نتیجہ یہ ہوا 158 ممبران کی پوری اسمبلی سے ووٹ لیا گیا اور عمومی ووٹوں کی کثرت سے اس کا فیصلہ کیا گیا۔ یہی صورت اکثر حالات میں پیش آتی ہے۔
موجودہ میعاد میں افریقہ کی باری تھی۔ جب یہ مسئلہ زیر غور آیا تو افریقی ممالک نے اتفاق رائے سے منظور کر لیا کہ زامبیا کے مندوب مسٹر پال لوساکا(Paul Lusaka) 39ویں جنرل اسمبلی کے صدر ہوں گے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 39 واں سیشن ستمبر 1984 میں شروع ہو گا۔ واضح ہوکہ افریقی ممالک نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔ مثلاً لیبیا پرجوش انقلابی ہے۔ مصرمعتدل پالیسی پر عامل ہے۔ موزمبیق میں مارکسی حکومت ہے۔ زائر ایک قدامت پرست ملک ہے۔ ان کے درمیان اندرونی معاملات میں کافی اختلافات ہیں۔ اس کے باوجود بین الاقوامی انجمن میں انھوں نے نادر اتفاق رائے کا ثبوت دیا ہے۔
یہ انوکھا واقعہ کیسے ظاہر ہوا،اس سلسلے میں نیو یارک ٹائمس کے نامہ نگار رچرڈبرنسٹین (Richard Bernstein)نے بعض ڈپلومیٹ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔
African unanimity is only achived by avoiding potentially contentious issues.
افریقی اتحاد رائے صرف اس طرح حاصل کیا گیا ہے کہ انھوں نے اختلافی باتوں کو پس پشت رکھا( ٹائمس آف انڈیا، 29 جنوری 1984)
یہی موجودہ دنیا میں اتحاد واتفاق کا واحد یقینی راستہ ہے۔ انسانوں کی راہیں ہمیشہ مختلف ہوتی ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ ہر معاملہ میں تمام لوگ بالکل متفق الرائے ہو جائیں۔ ایسی حالت میں باہمی اتحاد کی صورت صرف یہ ہے کہ اتحاد کی خاطر اختلاف کو بازو میں رکھ دیا جائے۔ اختلاف کو ختم کر کے اتحاد قائم نہیں ہوتا۔ اتحاد ہمیشہ صرف اس وقت قائم ہوتا ہے جب کہ کچھ لوگ اپنے اختلاف کو صبر کے خانہ میں ڈالنے پر راضی ہو جائیں۔