شکایات
ہندوستان کی آزادی سے پہلے کا واقعہ ہے۔ دیہات کے ایک آدمی شہر آئے اور اپنے ایک ملاقاتی کے یہاں مقیم ہوئے۔ ان کی ضیافت کے لیے گھر کے اندر سے خربوزہ بھیجا گیا۔ ایک بڑی پلیٹ میں خربوزہ کے ساتھ چھری رکھی ہوئی تھی۔ انھوں نے جب اس کو دیکھا تو سخت حیران ہوئے۔ انھوں نے کہا : میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خربوزہ اور چھری کا کیا جوڑ ہے۔ حتی ٰ کہ انھوں نے خربوزہ کھائے بغیر اسے لوٹا دیا۔
بعد کو ایک شخص نے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ خربوزہ کھانے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سے دبا کر اس کو توڑا اور کھا گئے۔ پھر یہ چھری کس لیے۔ میںتو اسے ٹونا ٹوٹکا سمجھا، اس لیے میں نے اسے نہیں کھایا۔
اسی قسم کا ایک اور واقعہ مذکورہ شخص کے ساتھ رات کو پیش آیا۔ رات کو جب ان کے سونے کے لیے بستر بچھایا گیا تو ان کے بستر پر ایک تکیہ بھی تھا۔ وہ رات بھر تکیہ کو دیکھتے رہے اور سونہ سکے۔ بعد کو اس کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ میں تو یہی سمجھا کہ اس کے اندر مال ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اس’’ گٹھری ‘‘کی رکھوالی کروں یا سوؤں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو دوسرے کے بارے میں شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ اس کے خلاف سخت برہم ہو جاتا ہے۔ اپنے طور پر وہ سمجھتاہے کہ اس کی شکایت اور برہمی بالکل بجا ہے۔ حالانکہ اس کی وجہ صرف اس کا ناقص علم ہوتاہے۔ پوری صورت حال سے بے خبری کی بنا پر وہ بطور خود ایک رائے قائم کر لیتا ہے اور اس پر شدت سے قائم ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اصل واقعہ کے اعتبار سے اس کی شکایت کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
اس برائی سے بچنے کی ترکیب قرآن میں یہ بتائی گئی ہے کہ جب بھی کوئی بات سنو تو اس کی تحقیق کر لو(49:6)۔ اگر آدمی واقعۃً سنجیدہ ہو تو وہ دو میں سے کوئی ایک رویہ اختیار کرے گا۔ یا تو سنی ہوئی بات کو بھلا دے گا اور اس کا کوئی چرچا نہیں کرے گا۔ اور اگر کسی وجہ سے وہ اس کا تذکرہ کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ متعلقہ شخص سے اس کی تحقیق کرے گا۔ اور تحقیق کے بعد جو بات سامنے آئے گی اس کو مان لے گا۔ تحقیق کے بغیر شکایتوں کا چرچاکرناجتنا غلط ہے اتنا ہی غلط یہ بھی ہے کہ تحقیق کے بعد بھی آدمی اپنی رائے پر قائم رہے۔ متعلقہ شخص کی تردید کے باوجود وہ اس کو مسلسل دہراتا رہے۔