ایک کے بعد دوسرا
پرل ہاربر امریکا کی ایک بندرگاہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانہ میں یہاں امریکی بحریہ کا زبردست فوجی اڈہ قائم تھا۔ 7 دسمبر 1941 کو جاپان نے اچانک پرل ہاربر پر بمباری کر کے اس کو تباہ کر دیا۔ امریکا کا جرم یہ تھا کہ وہ جاپان دشمن طاقتوں کے ہاتھ فوجی ہتھیار فروخت کرتا ہے۔ مگر جاپان کے اس جنگی اقدام نے مسئلہ کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ اب امریکا براہ راست جنگ میں شریک ہو گیا۔ اس کے بعد امریکا ، برطانیہ اور روس نے مل کر وہ فوجی محاذ قائم کیا جو تاریخ میں اتحادی طاقتوں ( Allied Powers) کے نام سے مشہور ہے۔ اس فوجی اتحاد کا سب سے زیادہ نقصان جاپانیوں کے حصہ میں آیا۔ امریکا نے اگست 1945 میں جاپان کے دوصنعتی شہروں (ہیرو شیما اور نا گا ساکی )پر تاریخ کے پہلے ایٹم بم گرائے۔ جاپان کے دونوں صنعتی مراکز بالکل برباد ہو گئے اور اسی کے ساتھ جاپان کی فوجی طاقت بھی۔
پرل ہاربر پر بمباری کرنا بلاشبہ جاپان کی عظیم الشان فوجی غلطی تھی۔ اس اقدام نے غیر ضروری طور پر امریکا کو جاپان کا دشمن بنا کر براہ راست اس کے خلاف کھڑا کر دیا۔ مگر جاپان ایک زندہ قوم تھی۔ اس نے ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی نہیں کی۔ اس نے نئے حالات کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے لڑنے کے بجائے اس کے ساتھ ہم آہنگی کا طریقہ اختیار کر لیا۔
جاپان کی اس عقل مندی نے اس کے لیے ایک نیا عظیم تر امکان کھول دیا۔ جنگی میدان میں اقدام کے مواقع نہ پا کر اس نے تعلیم اور صنعت کے میدان میں اپنی جدوجہد شروع کر دی۔ سیاسی اور فوجی اعتبار سے اس نے امریکا کی بالا دستی تسلیم کر لی اور دوسرے پر امن میدانوں میں اپنے آپ کو موڑ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 30 سال میں جاپان نے پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور حیثیت حاصل کر لی۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک مبصر نے لکھا ہے :
That is a queer culmination of Pearl Harbour, but history has many contrived corridors and perhaps Pearl Harbour was one of them.
یہ پرل ہاربر کے واقعہ کا بڑا عجیب اختتام ہے۔ مگر تاریخ میں اس طرح سے راستہ نکال لینے کی بہت سی مثالیں ہیں اور شاید پرل ہار بر ان میں سے ایک ہے (ہندوستان ٹائمس 30 نومبر 1981)
ہر ناکامی کے بعد ایک نئی کامیابی کا امکان آدمی کے لیے موجود رہتا ہے ، بشرطیکہ وہ نہ جھوٹی اکڑ دکھائے اور نہ بے فائدہ ماتم میں اپنا وقت ضائع کرے۔ بلکہ حالات کے مطابق از سر نو اپنی جدوجہد شروع کر دے۔