بیکار بھاؤ بِکو گے
شری ہردیوسنگھ المست (1983۔ 1927) انگریزی اور پنجابی زبان کے شاعرتھے۔ وہ اکثر سادہ مثالوں میں بڑی گہری باتیں کیا کرتے تھے۔
شری المست جی نے ایک بار اپنا ایک گیت سنایا۔ یہ گیت پنجابی زبان میں تھا۔ اس گیت میں موٹرکار کے پرزوں کو خطاب کیا گیا تھا۔ شاعر نے اپنے مخصوص انداز میں کہا تھا کہ — اے پرزو،تم اپنے انجن کے ساتھ جڑے رہو۔ اسی میں تمہاری قیمت ہے۔ اگر تم اپنے انجن سے الگ ہو گئے تو یاد رکھو کہ تم اس دنیا میں بے کار لو ہے کے بھاؤ بکو گے۔
یہ تمثیل بہت با معنی ہے۔ ایک مشین کے اندر بہت سے پرزے ہوتے ہیں۔ مگر پرزے کی اہمیت اپنی مشین سے جڑے رہنے میں ہے۔ مشین سے جڑکر ایک پرزہ انجن کا حصہ ہوتا ہے۔ مجموعی اعتبار سے وہ انجن کہا جاتا ہے۔ لیکن پرزہ اگر اپنی مشین سے الگ ہو جائے تو وہ اپنی ساری اہمیت کھو دے گا۔ اب وہ کباڑخانہ کا حصہ ہو گا،نہ کہ مشین کا حصہ۔ اب اس کی قیمت ’’لو ہے ‘‘کی ہو جائے گی جب کہ اس سے پہلے اس کی قیمت مشین کی تھی۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان اپنے پورے مجموعہ میں شامل ہو تو وہ عظیم تر مجموعہ کا جزء ہے۔ متحد ہونے کی صورت میں ایک فرد کی بھی وہی قیمت ہو جاتی ہے جو پورے مجموعہ کی قیمت ہے۔ مگر جو فرد اتحاد کے بندھن سے الگ ہو جائے وہ بس ایک فرد ہے۔ اس کی مثال اس پر زہ کی سی ہے جو اپنے انجن سے الگ ہو گیا ہو۔ ایسا پرزہ کباڑخانہ میں جا کر لوہے کے بھاؤ بکتا ہے۔ اسی طرح فرد اپنے مجموعہ سے الگ ہو کر اپنی قیمت کھو دیتا ہے۔
پرزہ کو انجن کا جزء بننے کے لیے اپنی انفرادی ہستی کھو دینی پڑتی ہے۔ اسی طرح فرد کو بھی متحدہ مجموعہ کا جزء بننے کے لیے اپنی انفرادیت کو کھونا پڑتا ہے۔ یقیناً فرد کے لیے یہ ایک بھاری قیمت ہے۔ مگر اس دنیا میں کوئی بھی چیز قیمت دیے بغیرنہیں ملتی۔ فرد کی تسکین کے لیے یہ کافی ہے کہ اس نے اتحاد کی جو قیمت دی تھی اس سے بڑی چیز اس نے اپنے لیے پالی۔
’’ لوہا ‘‘ اگر اپنی انفرادیت کو کھو کر ’’مشین ‘‘ کا درجہ حاصل کر لے تو یہ اس کے لیے کھونا نہیں ہے بلکہ وہ سب سے بڑی چیز پا لینا ہے جس کی وہ اس دنیا میں تمنا کر سکتا ہے۔