تاخیر نہیں
میڈیکل کالج کا پروفیسر زبانی امتحان لے رہا تھا۔ اس نے طالب علم سے پوچھا’’تم ان میں سے کتنی گولیاں اس شخص کو دو گے جس کو دل کا دورہ پڑا ہو‘‘۔طالب علم نے جواب دیا ’’چار‘‘۔ ایک منٹ کے بعد طالب علم نے دوبارہ کہا ’’پروفیسر، کیا میں اپنا جواب بدل سکتا ہوں‘‘پروفیسر نے کہا ’’ہاں ضرور‘‘۔اس کے بعد پروفیسر نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا ’’مگر مجھے افسوس ہے کہ تمہارا مریض 40 سیکنڈ پہلے مر چکا ہے‘‘۔
The Medical-College professor was giving an oral examination. “How many of these pills” he asked, “would you give a man who had a heart attack?” “Four” replied the student. A minute later he piped up. “Professor, can I change my answer?” “You can, by all means”, said the professor, looking at his watch. “But, regrettably, your patient has already been dead for 40 seconds.”
ایک شخص جس کو دل کا دورہ پڑا ہوا ہو وہ نہایت نازک حالت میں ہوتا ہے۔ اس کو فوری طور پر دوا کی بھر پور خوراک دینا انتہائی ضروری ہے۔ اگر اس کو فوری طور پر بھی بھرپور دوا نہ ملے تو اگلے لمحہ کا تقاضا صرف یہ ہو گا کہ اس آدمی کو ڈاکٹر کی بجائے گورکن کے حوالے کیا جائے۔
یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ بعض معاملات اتنے نازک ہوتے ہیں کہ وہ بلاتاخیر درستکاروائی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایسے معاملات میں آدمی کو فی الفور قطعی فیصلہ لینا پڑتا ہے۔ اگر آدمی فوراً فیصلہ نہ لے سکے تو وہ یقینی طور پر ناکام رہے گا۔ اگلا لمحہ جو اس پر آئے گا وہ صرف اس کی حسرت میں اضافہ کرنے کے لیے ہو گا،نہ کہ اس کی کامیابی کے باب کو مکمل کرنے کے لیے۔
زندگی کے سفر کی مثال ٹرین کے سفر کی ہے۔ ٹرین ہمیشہ مقرر وقت پر اسٹیشن پر آتی ہے۔ اور چند منٹ رک کر دوبارہ آگے کے لیے روانہ ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں صرف وہی شخص ٹرین میںاپنی جگہ پا سکتا ہے جوضروری تیاری کے ساتھ ٹھیک وقت پر پلیٹ فارم پر موجودہو۔ ورنہ ٹرین آئے گی اور اس کو لیے بغیر آگے چلی جائے گی۔ اسی طرح مواقع ہمیشہ اپنے وقت پر آتے ہیں۔ مگر مواقع کسی کے لیے ترقی کا زینہ بن جاتےہیں اور کسی کے لیے محرومی کا اعلان۔