حقیقت پسندی
باغ لگانے کا کام ’’ باغ کانفرنس ‘‘ سے شروع نہیں ہوتا۔ بلکہ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ ایک ایک پودے کو وہ حالات فراہم کیے جائیں جن میں وہ اپنی ذاتی اپجاؤ کی صلاحیت کو بروئےکار لائے اور درخت کی صورت میں ترقی کر کے باغ کے مجموعہ کا جزء بن جائے۔
یہی طریقہ ملت کی تعمیر کا بھی ہے۔ ملت کی تعمیر دراصل افراد کی تعمیر کا نام ہے۔ ایک ایک فرد کو با شعور بنانا، ایک ایک فرد کی چھپی ہوئی فطری صلاحیتوں کو بیدار کر کے اس کو حقیقی انسان کے درجہ پر پہنچانا، ایک ایک فرد کے اندر یہ احساس پیدا کرنا کہ وہ دوسرے بھائیوں کے لیے مسئلہ بنے بغیر اپنے ترقیاتی امکانات کو ظہور میں لانے کی جدوجہد کرے۔ اسی قسم کے عمل کا نام ملت کی تعمیر ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ بے فائدہ شوروغل ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
یہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے۔ یہاں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آدمی کے لیے بے روک ٹوک مواقع کھلے ہوئے ہوں اور میدان میں اس کا کوئی حریف موجود نہ ہو۔ ایسا نہ کبھی اس زمین پر کسی کے لیے ہوا اور نہ آج کسی کے لیے ایسا ہو سکتا ہے۔ زندگی حقیقۃ ً رکاوٹوں کے درمیان سے اپنے لیے راستہ نکالنے کا نام ہے،نہ کہ رکاوٹوں کی غیر موجودگی میں بے خوف وخطر دوڑنے کا۔
تاریخ کا مطالعہ جس طرح یہ بتاتا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کا آغاز ہمیشہ رکاوٹوں اور مشکلوں کے درمیان کرنا پڑتا ہے ، اسی طرح تاریخ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ رکاوٹیں خواہ کتنی ہی زیادہ ہوں ، ہمیشہ آدمی کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ کھلا ہوتا ہے جس سے چل کر وہ اپنی منزل پر پہنچ سکے۔ مگر یہ راستہ انھیں لوگوں کے لیے ہے جو راستہ کے بند مقامات پر سر نہ ٹکرائیں بلکہ دوسرے گوشوں میں اپنے لیے کوئی ’’ درہ ‘‘ تلاش کر کے آگے بڑھ جائیں۔
پھر تاریخ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ حادثہ خواہ کتنا ہی بڑا ہو ، اس کی تلافی کی صورت بھی انسان کے لیے ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی آفت یا حادثہ انسان کے لیے اس امکان کو ختم نہیں کرتا کہ وہ دوبارہ زیادہ بہتر منصوبہ کے ساتھ اپنے عمل کا آغاز کرے اور کھوئی ہوئی چیز کو دوبارہ نئے انداز سے حاصل کر لے۔
جو کچھ کسی دوسرے انسان کے پاس ہے وہی آپ بھی حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ آپ اس راز کو جان لیں کہ اس دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتا ہے حقیقت پسندانہ جدوجہد سے ملتا ہے،نہ کہ تمناؤں اور خوش خیالیوں سے۔