صبرکی ضرورت
مغل حکمراں اورنگ زیب کو اپنے والد شاہ جہاں سے سیاسی اختلاف ہو ا۔ 1658ء میں اس نے شاہجہاں کو تخت سے بے دخل کر کے آگرہ کے قلعہ میں قید کر دیا۔ اسی حال میں شاہجہاں 1666ء میں 74 سال کی عمر میں مر گیا۔ اسیری کے زمانہ میں اس کی بہن جہاں آرا بھی قلعہ میں اس کے ساتھ تھی۔ شاہ جہاں آگرہ کے قلعہ سے تاج محل کو دیکھا کرتا تھا اور اشعار پڑھتا رہتا تھا۔
ڈاکٹر آر۔ سی۔ مجمدار ، ڈاکٹر ایچ۔ سی۔ رائے چودھری اور ڈاکٹر کالی کِنکر دتہ نے اپنی مشترک کتاب تاریخ ہند (An Advanced History of India) میں شاہ جہاں کے آخری حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے مذہب میں اپنی تسکین کا سامان پا لیا۔ اور صبر کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنے آخری ایام اپنی پارسا لڑکی جہاں آرا کے ساتھ عبادت اور مراقبہ میں گزار دیے یہاں تک کہ مر گیا :
He found solace in religion, and, in a spirit of resignation, passed his last days in prayer and meditation in the company of his pious daughter, Jahanara, till his death (p. 477)
کہا جاتا ہے کہ ایک عرصہ کے بعد شاہ جہاں قید کی زندگی سے گھبرا اٹھا۔ اس نے اورنگ زیب کو ایک مصرعہ لکھ کر بھیجا جس کا مطلب یہ تھا کہ یا تو ہم کو مار ڈالو یا دام دو یا پھر ہم کو آزاد چھوڑ دو:
یا بکش یا دام دہ یا ازقفس آزاد کن
اورنگ زیب نے بھی اس کے جواب میں ایک اور مصرعہ لکھ کر شاہ جہاں کے پاس بھیج دیا۔ جو یہ تھا کہ ہوشیار چڑیا جب جال میں پھنس جائے تو اس کو برداشت سے کام لینا چاہیے :
مرغ زیر ک چوں بدام افتد تحمل بایدش
ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ نہ ہو ، صرف ایک لطیفہ ہو۔ تاہم یہ بذات خود ایک حکمت کی بات ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی غلطی یا کسی حادثہ کی بنا پر ایک ایسی صورت حال میں پھنس جاتا ہے جو اس کے لیے عام حالات میں بالکل نا قابل برداشت ہوتی ہے۔ مگر اب جہاں وہ پھنس گیا ہے وہاں سے فوری طور پر نکلنا عملاً ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں گھبرا کر کوئی اقدام کرنا سراسر نادانی ہے۔ جال میں پھنسنے کے بعد چڑیا اگر پر پھڑ پھڑ ائے تو وہ اور زیادہ پھنستی چلی جاتی ہے ، اسی طرح کسی نازک صورت حال میں پھنس جانے کے بعد آدمی اگر بے صبری کے ساتھ کاروائی کرے تو وہ اور زیادہ اس میں الجھ جائے گا۔
حکمت کا یہ اصول افراد کے لیے بھی ہے اور قوموں کے لیے بھی۔