مل کر کام کرنا
شہد کی تیاری ایک بے حد محنت طلب کام ہے۔ بہت سی مکھیاں لگاتار رات دن کام کرتی ہیں تب وہ چیز وجود میں آتی ہے جس کو شہد کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ایک پھول میں اس کی مقدار بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ بے شمار پھولوں کا رس جمع کیا جاتا ہے تب کہیں یہ ہوتا ہے کہ شہد کی قابل لحاظ مقدار تیار ہو سکے۔
ایک پونڈ (نصف کلو)شہد تیار کرنے کے لیے شہدکی مکھیوں کو مجموعی طور پر بعض اوقات تین لاکھ میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایک مکھی کی عمر چند مہینے سے زیادہ نہیں ہوتی اس لیے کوئی ایک مکھی تنہا ایک پونڈ شہد تیار نہیں کر سکتی ،خواہ وہ اپنی عمر کا ہر لمحہ پھولوں کا رس جمع کرنے میں لگا دے۔
اس مشکل کا حل شہد کی مکھیوں نے اجتماعی کوشش میں تلاش کیا ہے۔ یعنی جو کام ایک مکھی نہیں کر سکی اس کو لاکھوں مکھیا ں مل کر انجام دیتی ہیں۔ جو کام ’’ ایک ‘‘ کے لیے نا ممکن ہے وہ اس وقت ممکن بن جاتا ہے جب کہ کرنے والے ’’ لاکھوں ‘‘ ہو گئے ہوں۔
یہ قدرت کا سبق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ ممکن تھا کہ شہد کے بڑے بڑے ذخیرے زمین پر رکھ دے جس طرح پٹرول اور پانی کے ذخیرے بہت بڑی مقدار میں زمین پر جگہ جگہ موجود ہیں۔ مگر شہد کی تیاری کو اللہ نے ایک بے حد پیچیدہ نظام سے وابستہ کر دیا۔ اس حیرت انگیز نظام کے اندر انسان کے لیے بیشما ر سبق ہیں۔ ان میں سے ایک سبق وہ ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔
انسانی زندگی میں کچھ کام ایسے ہیں جن کو ہر آدمی کم وقت میں اپنی ذاتی کوشش سے انجام دے سکتا ہے۔ مگر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کو کوئی شخص تنہا انجام نہیں دے سکتا۔ ایسے کام کو واقعہ بنانے کی واحد ممکن شکل وہی ہے جو شہد کی مکھی کی مثال میں نظر آتی ہے۔ یعنی بہت سے لوگ مل کر اسے انجام دیں۔
تاہم مل کر کام کرنا ہمیشہ ایک قربانی کی قیمت پر ہوتا ہے ، اور وہ قیمت صبر ہے۔ فرد کے اندر اٹھنے والے با غیانہ جذبات کو کچلنا ہی وہ چیز ہے جو اجتماعی عمل کو ممکن بناتی ہے۔ اس قربانی کے بغیر کبھی اجتماعی عمل ظہور میں نہیں آتا۔