اسی خرچ سے
ایک عالم کا واقعہ ہے۔ ان کی زندگی ایک تصنیفی ادارہ میں گزری۔ وہ بہت سادہ طور پر رہتے تھے۔ اپنی مختصر آمدنی میں بھی وہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ بچت کر لیا کرتے تھے۔ ان کی صرف ایک لڑکی تھی۔ اس کی انھوں نے شادی کی تو شادی میں کچھ خرچ نہیں کیا۔ ایک نوجوان سے سادہ طور پر نکاح پڑھایا اور اس کے بعد لڑکی کو رخصت کر دیا۔ البتہ انھوں نے رخصت کرتے ہوئے اپنی لڑکی اور داماد کو ایک چیک دیا۔ یہ چیک دس ہزار روپے کا تھا۔ انھوں نے کہا :’’یہی میری زندگی بھر کی بچت ہے جو بینک میں جمع تھی۔ اس رقم کو میں شادی کے رسوم میں بھی خرچ کرسکتا تھا۔ تاہم اس کے مقابلہ میں مجھے یہ زیادہ پسند آیا کہ میں اس کو نقد تم لوگوں کے حوالے کردوں۔ تم لوگ اسے سنبھالو اور اس کو اپنی زندگی کی تعمیرمیں استعمال کرو ‘‘۔
لڑکی اور داماد نے باہم مشورہ کیا تو ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ اس رقم سے کوئی کاروبار شروع کیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ ابتدا میں ان کو کافی محنت کرنی پڑی۔ بعض اوقات بڑے سخت مراحل سامنے آئے۔ مگر وہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے کاروبار پر جمے رہے۔ بالآخر حالات بدلنا شروع ہوئے۔ مذکورہ’’دس ہزار‘‘روپیہ میں برکت ہوئی اور وہ لوگ چند سال کے بعد کافی ترقی کر گئے۔ اب وہ اپنے مقام پر ایک با عزت اور خوش حال زندگی گزاررہے ہیں۔
شادی آدمی کی زندگی کا ایک بے حد سنجیدہ واقعہ ہے۔ وہ دھوم مچانے کا دن نہیں بلکہ زندگی کی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کا دن ہے۔ اس دن ایک مرد اور ایک عورت اپنے کو گاڑھے اقرار (النساء، 4:21) میں باندھتے ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ نکاح کی تقریب سادہ ہو،وہ فضول نمائشوں سے بالکل پاک ہو۔ اور اگر کسی کو خرچ ہی کرنا ہے تو اس خرچ کی ایک اچھی صورت وہ ہے جس کی مثال اوپر کے واقعہ میں نظر آتی ہے۔
اگر ہمارے درمیان اس قسم کا رواج پڑ جائے تو شادی قومی تعمیرکے پروگرام کا ایک اہم جزء بن جائے۔ ہر خاندان میں نہایت خاموشی کے ساتھ ترقی کا سلسلہ چل پڑے۔ قوم کے اربوں روپے جو ہر سال چند دن کے تماشوں میں ضائع ہو جاتے ہیں ، قوم کی تعمیر کا ایک مستحکم ذریعہ بن جائیں۔ وہ قومی اقتصادیات کے منصوبہ کا جزء بن جائیں۔ اور قوم اقتصادی حیثیت سے اوپر اٹھ جائے تو یہ صرف ایک اقتصادی واقعہ نہیں ہو گا بلکہ بے شمار پہلوؤں سے وہ قوم کی ترقی کے لیے مفید ہو گا— یہ ایک مزید فائدہ ہے مگر مزید خرچ کے بغیر۔