25 پیسے سے
شام کا وقت تھا۔ بارہ سال کا بچہ اپنے گھر میں داخل ہوا، اس کو بھوک لگ رہی تھی۔ وہ اس امید میں تیز تیز چل کر آرہا تھا کہ گھر پہنچ کر کھانا کھاؤں گا اور پیٹ کی آگ بجھاؤں گا۔ مگر جب اس نے اپنی ماں سے کھانا مانگاتو جواب ملا’’اس وقت گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے‘‘ بچہ کا باپ ایک غریب آدمی تھا۔ وہ محنت کر کے معمولی کمائی کرتا تھا۔ روزانہ کمانا اور روزانہ دکان سے سامان لا کر پیٹ بھرنا یہ اس کی زندگی تھی تاہم ایسا بھی ہوتا کہ کسی دن کوئی کمائی نہ ہوتی اور باپ خالی ہاتھ گھر واپس آتا۔ یہ ان کے لیے فاقہ کا دن ہوتاتھا۔ اس خاندان کی معاشیات کا خلاصہ ایک لفظ میں یہ تھا:’’کام مل گیا تو روزی، کام نہیں ملا تو روزہ‘‘۔
ماں کا جواب سن کر بچہ کو بڑا صدمہ ہوا’’مجھے بھوک لگ رہی ہے اور میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں‘‘۔وہ چپ ہو کر دیر تک سوچتا رہا۔ اس کے بعد بولا’’کیاتمہارے پاس 25 پیسے بھی نہیں ہیں‘‘۔ماں نے بتایا کہ 25 پیسے اس کے پاس موجود ہیں’’اچھا تو لاؤ 25 پیسے مجھے دو‘‘۔ بچہ نے کہا۔ اس نے اپنی ماں سے 25 پیسے لیے۔ اس کے بعد ایک بالٹی میں پانی بھرا۔ دو گلاس لیے۔ 25 پیسے کا برف لے کر بالٹی میں ڈالا اور سیدھا سینما ہاؤس پہنچا۔ یہ گرمی کا زمانہ تھا جب کہ ہر آدمی پانی پینے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ وہاں اس نے آواز لگا کر ’’ٹھنڈا پانی‘‘بیچنا شروع کیا۔ اس کا پانی تیزی سے بکنے لگا۔ کئی لوگوں نے بچہ سمجھ کر زیادہ پیسے دئیے۔ آخر میں جب وہ خالی بالٹی میں گلاس ڈال کر واپس گھر پہنچا تو اس کے پاس پندرہ روپے ہو چکے تھے۔
اب بچہ روزانہ ایسا ہی کرنے لگا۔ دن کو وہ اسکول میں محنت سے پڑھتا اور شام کو پانی یا اور کوئی چیز بیچ کر کمائی کرتا۔ اسی طرح وہ دس سال تک کرتا رہا، ایک طرف وہ گھر کا ضروری کام چلاتا رہا دوسری طرف اپنی تعلیم کو مکمل کرتا رہا۔ آج یہ حال ہے کہ اس لڑکے نے تعلیم پوری کر کے ملازمت کر لی ہے۔ اس کو تنخواہ سے ساڑھے سات سو روپے مہینہ مل جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ’’شام کا کاروبار ‘‘بھی وہ بدستور جاری رکھے ہوئے ہے۔ اپنے چھوٹے سے خاندان کے ساتھ اس کی زندگی بڑی عافیت سے گزر رہی ہے۔ اس کی محنت کی کمائی میں اللہ نے اتنی برکت دی کہ اپنا آبائی ٹوٹا پھوٹا مکان اس نے ازسرنو بنوا لیا۔ سارے محلہ والے اس کی عزت کرتے ہیں ماں باپ کی دعائیں ہر وقت اس کو مل رہی ہیں۔
مشکل حالات آدمی کے لیے ترقی کا زینہ بن سکتے ہیں، بشرطیکہ مشکل حالات آدمی کو پست ہمت نہ کریں بلکہ اس کے اندر نیا عزم پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائیں۔ زندگی میں اصل اہمیت ہمیشہ صحیح آغاز کی ہوتی ہے۔ اگر آدمی اتنے پیچھے سے سفر شروع کرنے پر راضی ہوجائے جہاں سے ہر قدم اٹھانا آگے بڑھنا ہو تو کوئی بھی چیز اس کو کامیابی تک پہنچنے سے روک نہیں سکتی۔ ’’25 پیسے ‘‘سے سفر شروع کیجئے۔ کیوں کہ ’’25 پیسے‘‘ سے سفر شروع کرنا ہر ایک کے لیے ممکن ہے اور جو سفر ’’25 پیسے ‘‘سے شروع کیا جائے وہ ہمیشہ کامیاب رہتا ہے۔