قدر دانی
چارلس ڈارون ( 1809-1882) اپنے اسکول کے زمانہ میں اچھا طالب علم نہ تھا۔ اس کے والد نے ایک بار اس کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا کہ ’’تم بس شکار کھیلتے رہتے ہو اور کتوں کے ذریعہ چوہا پکڑنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتے ہو‘‘۔ اسکول کی تعلیم کے بعد اس کے والد نے اس کو ڈاکٹری کے کورس میں داخل کیا مگر وہ ڈاکٹری کا کورس مکمل نہ کرسکا۔ اس کے بعد پادری بننے کا ارادہ کیا اور کیمبرج یونیورسٹی میں دینیات میں داخلہ لیا۔ مگر یہاں بھی وہ ناکام رہا۔
کیمبرج کے قیام کے زمانہ میں ڈارون کو تاریخ طبیعی (Natural history) کے موضوع سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ یہ مضمون اگرچہ اس کے ڈگری کورس کے نصاب میں شامل نہ تھا۔ تاہم ذاتی شوق کے تحت وہ اس کو پڑھتا رہا۔ تاریخ طبیعی اور علم طبقات الارض سے دلچسپی نے ڈارون کو پروفیسر ہنسلو (J.S.Henslow) تک پہنچایا۔ پروفیسر ہنسلو نہایت علم دوست اور وسیع الظرف آدمی تھے۔ ان سے تعلق ہی ڈارون کےلیے پہلا زینہ تھا جس نے اس کو علم کی دنیا میں چوٹی کے مقام پر پہنچا دیا۔
اس زمانہ میں برطانوی حکومت نے اپنے بحریہ کے ایک خاص دخانی جہاز کو جس کا نام بیگل (Beagle) تھا تحقیقات کی مہم پر روانہ کیا۔ یہ جہاز بحر الکاہل اور اٹلانٹک کے ساحلی ملکوں کا پانچ سال (1831-36) تک سروے کرتا رہا۔ پروفیسر ہنسلو نے اپنے ذاتی اثرات سے کام لے کر ڈارون کو اس جہاز میں جگہ دلا دی۔ ڈارون اس جہاز میں تاریخ طبیعی کے عالم (Naturalist) کے طور پر مقرر کردیا گیا۔ اس طرح اس کو موقع مل گیا کہ دنیا کے مختلف حصوں کا عملی مشاہدہ کرسکے۔ ڈارون اس وقت بطور خود بیگل میں جگہ نہیں حاصل کرسکتا تھا۔ یہ صرف پروفیسر ہنسلو تھے جنھوں نے نوجوان ڈارون کی صلاحیت کو پہچانا اور اس کو اس تاریخی کشتی میں سفر کرنے کا موقع فراہم کیا۔
اس پانچ سالہ مدت میں ڈارون نے مختلف ملکوں کو دیکھا اور سواحل پر واقع جنگلوں اور پہاڑوں کے سفر کیے۔ کہیں پیدل اور کہیں گھوڑے پر وہ میلوں تک اندر گیا اور ہزاروں کی تعداد میں مختلف قسم کے پودوں اور جانوروں کا مشاہدہ کیا اور ان کے نمونے جمع کیے۔ ساتھ ہی اس نے پتھروں میں محفوظ مختلف جانداروں کے باقیات (Fossils) کا ذخیرہ بھی اکٹھا کیا۔
اس سفر کے مشاہدات سے اس نے بہت سے نظریات قائم کیے۔ مثلاً یہ کہ مختلف اقسام کے جانور ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود بہت سے پہلوؤں سے باہم مشابہت رکھتے ہیں۔ اسی طرح یہ کہ کوئی جاندار جس ماحول میں رہتا ہے وہ اس ماحول کا مناسبت سے اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہے وغیرہ۔ بنیادی طور پر یہی وہ مشاہدات تھے جو مزید مطالعہ کے بعد ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی صورت میں ڈھل گئے۔
راقم الحروف ذاتی طور پر ڈارون کے نظریۂ ارتقا کو سراسر وہم سمجھتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم ڈارون کی زندگی میں یہ سبق ہے کہ ’’بڑوں ‘‘ کی قدردانی کس طرح ’’ چھوٹوں‘‘ کو آگے بڑھاتی ہے اور ان کی صلاحیت کو نمایاں ہونے کا موقع دیتی ہے۔ جس معاشرے میں بڑے لوگ جوہر کی بنیاد پر افراد کی قدردانی کریں وہاں افراد ترقی کریں گے اور جہاں ایسا ہو کہ وقت کے بڑے لوگ صرف اپنے حاضر باشوں اور خوشامد پرستوں کی قدر کرنا جانیں وہاں افراد کی صلاحیتیںمُرجھا کر رہ جائیں گی۔ ایسا معاشرہ کبھی اعلیٰ ترقی تک نہیں پہنچ سکتا۔
ڈارون کی زندگی کا ایک اور واقعہ بہت سبق آموز ہے۔ ڈارون کے ساتھ ایک عجیب اتفاق پیش آیا۔ ڈارون نے 1852 میں طبیعی انتخاب (Natural Selection) کے متعلق اپنے خیالات قلمبند کرلیے تھے۔ مگر ابھی اس کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ جون 1858میں اس کو الفرڈویلیس (Alfred Wallace) کا ایک خط موصول ہوا۔ اس خط میں اس نے اپنے ایک غیر مطبوعہ مقالہ کا ذکر کیا تھا۔ اس مقالہ میں اس نے عین وہی بات لکھی تھی جو ڈارون نے اپنے مقالہ میں لکھ رکھی تھی۔ ڈارون یہ کرسکتا تھا کہ اولیت کا کریڈٹ لینے کےلیے وہ فوراً اپنے مقالے کو شائع کردے۔ مگر اس نےایسا نہیں کیا۔ اس نے یہ منصوبہ بنایا کہ وہ اپنے اور ویلیس کے خیالات کو ایک مشترکہ مقالہ کی صورت میں لند ن کی سوسائٹی (Lennean Society) کے سامنے پیش کرے تاکہ یہ نیا نظریہ لوگوں کے سامنے زیادہ طاقت اور اہمیت کے ساتھ لایا جاسکتے۔ چنانچہ 20 جون 1858 کو ارتقاء کا نظریہ ایک مشترکہ مقالہ کی صورت میں لندن کے اہل علم کے اجتماع کے سامنے پیش کیا گیا۔ اور فورا ہی اہمیت کا موضوع بن گیا— اجتماعی عمل ہمیشہ زیادہ طاقتور ہوتا ہے،بشرطیکہ افراد اپنی انفرادی خواہشوں کو روکیں اور اجتماعی انداز میں کام کرنے کا حوصلہ کرسکیں۔