ڈیگال ازم

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قوم کو زندہ کرنے کے لیے فرد کو اپنے آپ کو ہلاک کرنا پڑتاہے۔ موجودہ زمانہ میں فرانس کے چارلس ڈیگال ( 1890-1970) نے اس کی شاندار مثال پیش کی ہے۔

ڈیگال دسمبر 1958 میں فرانس کے صدر منتخب ہوئے۔ اس وقت افریقہ میں فرانس کے تقریباً ایک درجن مقبوضات تھے جن میں آزادی کی تحریک چل رہی تھی۔ خاص طور پر الجیریا میں یہ تحریک بہت شدت اختیار کر چکی تھی۔ فرانس نے اس کو کچلنے کے لیے تقریباً 25 لاکھ آدمی قتل کر دئیے۔ اس کے باوجود الجیریا میں آزادی کی تحریک دبتی ہوئی نظر نہیں آتی تھی۔ یہ صورت حال چارلس ڈیگال کے لیے سخت تشویشناک بن گئی۔ انسائیکلوپیڈیا بر ٹانیکا کے الفاظ میں ، الجیریا کی جنگ کے مسائل ان کے لیے اس میں روک بن گئے کہ وہ مستقبل کی مثبت پالیسیوں (Positive policies) کے بارے میں نقشہ بنانے سے زیادہ کچھ کر سکیں۔ (جلد 7 ، صفحہ 964)

فرانس اپنے افریقی مقبوضات کو فرانس کا صوبہ(Province)کہتا تھا۔ وہ ان کی زبان اور کلچر کو اس حد تک بدل دینا چاہتا تھا کہ وہاں کے با شندے اپنے آپ کو فرانسیسی سمجھنے لگیں۔ مگر یہ منصوبہ فرانس کے لیے بہت مہنگا پڑا۔ عملاً یہ ممالک فرانس کا صوبہ نہ بن سکے اور اس غیر حقیقت پسندانہ کوشش نے خود فرانس کوایک کمزور ملک بنا دیا۔ فرانس کی تمام بہترین طاقت مقبوضہ ممالک میں آزادی کی تحریکوں کو دبانے اور کچلنے میں استعمال ہونے لگی اور فرانس نے یورپ کی ایک عظیم طاقت(Great power) ہونے کی حیثیت کھو دی۔

سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ افریقہ پر قبضہ کرنے کی کوشش میں فرانس ایٹمی دوڑ میں پیچھے ہو گیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ چارلس ڈیگال نے محسوس کیا کہ نو آبادیاتی جنگ لڑنے کی کوشش فرانس کے لیے اس میںمانع ہو گئی ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار تیار کرے۔ چنانچہ ڈیگال نے الجیریا کو آزاد کر دیا۔ اور اس کے بعد مضبوط ایٹمی طاقت کو وجود میں لانے کی کوشش شروع کر دی جو فرانس کی عظیم حیثیت کے لیے نئی بنیاد بن سکے۔ ( جلد 4، صفحہ 905)

ڈیگال نے معاملہ کو قومی ساکھ یا ذاتی قیادت سے الگ ہو کر دیکھا۔ ٹھنڈے دل سے سوچنے کے بعد وہ اس رائے پر پہنچے کہ اس مسئلہ کا حقیقت پسندانہ حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ افریقی مقبوضات کو آزاد کر دیا جائے۔ تاہم فرانس کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یہ فرانس کے قومی وقار (National prestige) کا مسئلہ تھا اور قومی وقار ایسی چیز ہے کہ قومیں لڑ کر ہلاک ہو جاتی ہیں مگر وہ اپنے وقار کو کھونا برداشت نہیں کرتیں۔ یہ یقینی تھا کہ جو شخص اس معاملہ میں قومی وقار کے خلاف فیصلہ کرے گا وہ فرانس میں اپنی مقبولیت کو یکسرختم کر دے گا۔ تاہم ڈیگال نےیہ خطرہ مول لے لیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے الفاظ میں: ڈیگال نے الجیریا کے مسئلہ کو اس وقت حل کر دیا جب کہ ان کے سوا کوئی دوسرا شخص اس کو حل نہیں کر سکتا تھا۔ ( جلد 7، صفحہ 965)

جنرل ڈیگال نے اس کے بعد الجیریا کے لیڈروں کو گفت وشنید کی دعوت دی۔ اس گفت وشنید کا فیصلہ عین منصوبہ کے تحت الجیریا کے حق میں ہوا۔ یعنی حکومت فرانس اس پر راضی ہو گئی کہ الجیریا میں ریفرنڈم کرایا جائے اور لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ فرانس کی ماتحتی پسند کرتے ہیں یا آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ ریفرنڈم ہوا۔ پیشگی اندازے کے مطابق الجیریا کے با شندوں نے آزاد الجیریا کے حق میں اپنی رائیں دیں اور اس کا احترام کرتے ہوئے حکومت فرانس نے جولائی 1962 میں الجیریا کی آزادی کا اعلان کر دیا۔

اس کے نتیجہ میں چارلس ڈیگال پر سخت تنقیدیں ہوئیں۔ ان کے اوپر قاتلانہ حملے کیے گئے۔ اس کے بعد عوام کے دباؤ کے تحت ڈیگال نے فرانس میں ایک ریفرنڈم کرایا جس میں ڈیگال کو شکست ہوئی۔ بالآخر انھوں نے 28 اپریل 1969 کو صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ 9 نومبر 1970 کو ان پر قلب کا دورہ پڑا اور ان کا انتقال ہو گیا۔ ڈیگال ایک معمولی قبرستان میں اس طرح دفن کر دیے گئے کہ ان کے جنارے میں ان کے چند رشتہ داروں اور دوستوں کے سوا کوئی اور شریک نہ تھا۔ ڈیگال خود مر گئے۔ مگر انھوں نے مر کر اپنی قوم کو دوبارہ زندگی دے دی۔

ڈیگال کے اس واقعہ سے اگر ڈیگال ازم (Degaullism) کی اصطلاح بنائی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈیگال ازم اپنی قیادت کی قیمت پر قوم کو بچانا ہے۔ برٹانیکا (1984) کے الفاظ میں ، ڈیگال تنہا شخص تھے جن میں یہ حوصلہ تھا کہ وہ ایسے نازک فیصلے لے سکیں جن سے سخت قسم کے سیاسی اور شخصی خطرات (Political and personal risks) وابستہ ہوتے ہیں (E.B. 7/965)۔ڈیگال ازم قومی زندگی کا راز ہے۔ مگر بہت کم ایسا ہوتا ہےکہ کسی قوم کو ایک’’ڈیگال‘‘حاصل ہو جائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom