زمانہ کے خلاف
شہر کی پوش کالونی میں ایک آدمی آوا ز لگا رہا تھا:
برتن قلعی والا، برتن قلعی والا
وہ آواز لگاتا ہوا تمام سڑکوں پر گھومتا رہا۔ مگر شاندار مکانات میں سے کسی نے بھی اس کی طرف توجہ نہ دی۔ ساری کالونی میں کسی کے یہاں بھی اس کو کام نہ ملا۔
کیا یہ تعصب کا معاملہ تھا۔ کیا ظلم اور گھمنڈ کی وجہ سے لوگوں نے ’’برتن قلعی والے‘‘ کو کام نہیں دیا۔ ہو سکتا ہے کہ ’’برتن قلعی والا‘‘اسی طرح سوچتا ہو۔ وہ ایک جاہل آدمی تھا۔ اس کے باپ دادا یہی کام کرتے تھے۔ وہ خود چالیس سال سے یہی کام کر رہا ہے۔ اس بنا پر اس کا ذہن ’’برتن قلعی ‘‘میں اتنا گم ہو چکا ہے کہ وہ اس سے باہر نکل کر نہیں سوچ سکتا۔
مگر جو شخص ’’برتن قلعی ‘‘ سے باہر کی حقیقتوں کو جانتا ہو، جو وسیع تر دائرہ میں سوچ سکے، وہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ برتن قلعی والے کو کالونی میں کام نہ ملنے کی وجہ کیا تھی۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ تھی کہ قلعی کا کام تانبے پیتل کے برتنوں میں ہوتا ہے، جب کہ کالونی کے تمام مکانات میں اسٹین لیس اسٹیل کے برتن استعمال ہو رہے تھے۔ پھر یہاں برتن قلعی والے کو کام ملتا تو کس طرح ملتا۔
موجودہ دنیا میں کامیابی کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی وقت کو پہچانے۔ وہ زمانہ کے تقاضوں سے واقف ہو۔ جو شخص وقت اور زمانہ کو نہ جانے اس کا حال وہی ہو گا جو مذکورہ آدمی کا ہوا۔ وہ اسٹین لیس اسٹیل استعمال کرنے والوں کے درمیان ’’برتن قلعی ‘‘کی آواز لگاتا رہے گا اور وہاں کوئی بھی شخص نہ ملے گا جواس کا خریدار بن سکے۔ وہ اپنی خلاف زمانہ دکانداری کی بنا پر ناکام ہو گا اور پھر دوسروں کو الزام دے گا کہ انھوں نے تعصب اور ظلم کی وجہ سے میری دکان چلنے نہ دی۔ لیاقت کے دور میں تحفظ کا مطالبہ، معافی کی دنیا میں الفاظ کا کرتب دکھانا،حقیقت کے بازار میں خوش خیالی کی قیمت پر سودا حاصل کرنے کی کوشش، یہ سب اسی قسم کی خلاف زمانہ حرکت ہے اور ایسی ہر کوشش کا ایک ہی انجام ہے، اور وہ یہ کہ ان کا کوئی انجام نہیں۔