تحقیق کیجئے
ایک ہندوستانی حجاز گیا۔ ایک روز مدینہ میں اس کی ملاقات ایک عرب سے ہوئی۔ بظاہر وہ ایک بدو دکھائی دیتا تھا اور اس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا۔ وہاں چونکہ چور کے ہاتھ کاٹ دئے جاتے ہیں، ہندوستانی نے خیال کیا کہ یہ کوئی چور ہے۔ اس نے چوری کی تھی جس کی وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ ہندوستانی کو اولاً اس سے ملنے میں کچھ کراہت محسوس ہوئی۔ پھر جبر کرکے اس کی طرف بڑھا اور اپنے عرب بھائی سے مصافحہ اور معانقہ کیا۔
گفتگو چلی تو اس نے بتایا کہ وہ مدینہ کے قریب ایک بستی ’’یُتمہ‘‘کا رہنے والا ہے۔ اس کے پاس کافی زمینیں ہیں جہاں 23مکائن(ٹیوب ویل) لگے ہوئے ہیں۔ اس کے کھیتوں کی پیداوار بہت بڑی مقدار میں روزانہ مدینہ کے بازار میں آتی ہے۔
پھر اس کے ہاتھ کٹنے کا ذکر ہوا تو اس نے بتایا کہ 1948ء میں فلسطین کے معاملہ میں عربوں اور یہودیوں میں جو لڑائی ہوئی وہ اس میں شریک تھا۔ اس کے بازو میں چھ گولیاں لگیں۔ اس کے بعد وہ عرصہ تک اسپتال میں رہا۔ وہاں ڈاکٹروں نے ناگزیر سمجھ کر اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا۔ تاکہ پورے بازو کو متاثر ہونے سے بچایا جاسکے۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناقص معلومات کی وجہ سے کس طرح ایک بات کسی کے ذہن میں کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے۔ مذکورہ عرب کو ایک ہندوستانی نے ناواقفیت کی بنا پر چور سمجھ لیا حالانکہ وہ ایک مجاہد اور ایک تاجر آدمی تھا۔ وہ دوسروں کو دینے والا تھا،نہ کہ ان سے لینے والا۔ وہ سماج کا ایک کار آمد فرد تھا،نہ کہ سماج کارہزن۔
ہر آدمی کے اوپر فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کے بارے میں رائے قائم کرنے میں کبھی جلدی نہ کرے۔ جب بھی اس کے سامنے کوئی بات آئے تو وہ اس کی پوری تحقیق کرے۔ تحقیق سے پہلے ہرگز اس کے بارے میں اپنی زبان نہ کھولے۔
اگر کسی شخص کے پاس تحقیق کرنے کا وقت یا سامان نہیں ہے تو اس کےلیے دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ مذکورہ معاملہ میں چپ رہے، نہ یہ کہ ناقص معلومات کے تحت اس کے بارے میں بولنے لگے۔ اس دنیا میں چپ رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا بولنا۔