قربانی
1962 کا واقعہ ہے۔ مسٹر سریش ایچ کامدار کی عمر اس وقت 29 سال تھی۔ وہ کلکتہ کے میڈیکل کالج ہسپتال میں اپنے ایک بیمار عزیز کو دیکھنے کے لیے گئے۔ وہاں اس وقت ایک مریض لایا گیا۔ اس کا آپریشن ضروری تھااور اس کے لیے فوری طورپر خون(Blood transfusion)کی ضرورت تھی۔ یہ اس آدمی کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ مسٹر کامدار کا بلڈگروپ اے (A-Rh Positive)تھا۔ ان کو مریض پر ترس آیا۔ انھوں نے رضاکارانہ طور پر خون کی پیش کش کر دی۔ ایک زندگی بچا لی گئی۔
مسٹر کامدار کی عمر اب 53 سال ہو چکی ہے کلکتہ کے مذکورہ تجربہ کے بعد انھوں نے خون دینے کو اپنا مستقل مسلک بنا لیا۔ پچھلے 24 سال کے اندر وہ ایک سو بار رضاکارانہ طور پر خون دے چکے ہیں۔ انھیں ریڈ کر اس سوسائٹی نے اعلیٰ امتیاز کے تمغے عطا کیے ہیں۔ ( ٹائمس آف انڈیا، 2دسمبر 1985)
دنیا میں ایسے لوگ بہت ہیں جو فوری جوش سے بھڑک اٹھیں اور لڑ کر اپنا خون دے دیں۔ مگر ایسے لوگ بے حد کمیاب ہیں جو سوچے سمجھے ذہن کے تحت مستقل خون دیں اور زندگی کے آخری لمحات تک دیتے رہیں۔
یہ دوسرے لوگ بظاہر چھوٹا کام کرنے والے لوگ نظر آتے ہیں۔ مگر یہی لوگ ہیں جو دنیا میں بڑا کام کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو تاریخ بناتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی انفرادی قربانیوں کے ذریعہ پوری قوم کو آگے لے جاتے ہیں۔ پہلی قسم کی قربانی اگر لیڈر بناتی ہے تو دوسری قسم کی قربانی قوم تیار کرتی ہے۔ پہلی قربانی اگر حال کی تعمیر ہے تو دوسری قربانی مستقبل کی تعمیر۔
ایک بڑا مکان اچانک نہیں بنتا۔ سالہا سال تک ایک ایک اینٹ جوڑی جاتی ہے ، اس کے بعد وہ مجموعہ تیار ہوتا ہے جس کو مکان کہتے ہیں۔ ایک تالاب اچانک نہیں بھر جاتا۔ بارش ایک عرصہ تک بوندبوند پانی اس میں پہنچاتی ہے تب ایک بھرا ہوا تالا ب وجود میں آتاہے۔ یہی معاملہ انسانی معاملات کا ہے۔ انسانی زندگی میں کوئی بڑا واقعہ اس وقت ظہور میں آتا ہے جب کہ بہت سے لوگ اس کے لیے تیار ہوں کہ وہ اپنی تھوڑی کوششوں کو لمبی مدت تک جمع کریں گے۔ انسانی کامیابی صابرانہ عمل کا نتیجہ ہے،نہ کہ وقتی اقدام کا نتیجہ۔