جواب کا طریقہ
ایک آدمی نے ایک بزرگ کی تعریف کی۔ اس نے کہا کہ وہ ایسے پہنچے ہوئے بزرگ تھے کہ وہ نماز کی حالت میں مرے۔ گویا ان کی موت خدا کی گود میں ہوئی۔ سننے والا کچھ دیر چپ رہا، اس کے بعد بولا:خدا کے رسول کی وفات ہوئی تو وہ اپنی اہلیہ کی گود میں تھے اور بزرگ کی وفات خدا کی گود میں ہوئی۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ بزرگ خدا کے رسول سے بھی زیادہ پہنچے ہوئے تھے۔ یہ جواب اتنا وزنی تھا کہ اس کو سن کر آدمی خاموش ہو گیا۔
سننے والے نے مذکورہ بزرگ کے حالات پڑھے تھے۔ اس میں اس کو کہیں یہ بات نہیں ملی تھی کہ بزرگ کی موت نماز کی حالت میں ہوئی۔ تاہم اس نے سوچاکہ اگر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ بات کہاں لکھی ہے یا کس ذریعہ سے ثابت ہوتی ہے تو خواہ مخواہ کی بحث شروع ہو جائے گی اور وہ کہیںختم نہ ہو گی۔ چنانچہ اس نے اس سوال کو نہیں چھیڑا۔ اس نے ایسی بات کہی جو نہ صرف یقینی تھی بلکہ اپنے عمومی پہلو کی بنا پر وہ آدمی کو چپ کر دینے والی تھی۔ چنانچہ لمبی بحث کی نوبت نہیں آئی اور ایک ہی جملہ سارے سوال کا جواب بن گیا۔
یہی ایسے معاملات میں جواب دینے کا صحیح طریقہ ہے۔ اگر آدمی ایساکرےکہ وہ مخاطب کی بات سنتے ہی فوراً اس سے الجھ نہ جائے بلکہ تھم کر سوچے کہ اس کا صحیح اور موثر جواب کیا ہو سکتا ہے تو یقینی طور پر وہ ہر سوال کا ایسا جواب پا لے گا جو اس قدر فیصلہ کن ہو کہ لمبی بحث وتکرار کی نوبت نہ آئے اور صرف ایک جملہ پورے سوال کے لیے فیصلہ کن بن جائے۔
سب سے برا جواب وہ ہے جس میں سوال کرنے والا اور جواب دینے والا دونوں الجھ جائیں اور بالآخر اس طرح الگ ہوں کہ دونوں میں سے کوئی ہار ماننے کے لیے تیارنہ ہوا تھا۔ اور سب سے اچھا جواب وہ ہے جب کہ جواب دینے والا ایسا سوچا سمجھا ہوا وزنی جواب دے جس کے بعد سوال کرنے والے کی سمجھ ہی میں نہ آئے کہ اس کے آگے وہ کیا کہہ سکتا ہے۔