ایک کے بعد دوسرا
مسافر اسٹیشن پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کی ٹرین جا چکی ہے۔ اس کی گھڑی صحیح نہ تھی اس لیے وہ دس منٹ لیٹ ہو گیا۔ اتنی دیر میں ٹرین آکر چلی گئی۔’’بابوجی، فکرنہ کیجئے‘‘قلی نے کہا’’دو گھنٹے بعد ایک اور گاڑی آ رہی ہے، اس سے آپ چلے جائیں۔ اتنی دیر پلیٹ فارم پر آرام کر لیجئے‘‘۔ مسافر نے قلی کا مشورہ مان لیا اور دو گھنٹہ انتظار کے بعد اگلی ٹرین پر سوار ہو کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔
ہر مسافر جانتا ہے کہ ایک ٹرین چھوٹ جائےتو جلدبعد ہی دوسری ٹرین مل جاتی ہے جس سے وہ اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ یہ پلیٹ فارم کا سبق ہے۔ مگر اکثر لوگ اس معلوم سبق کو اس وقت بھول جاتے ہیں جب کہ زندگی کی دوڑ میں ایک موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہو۔ پہلی بار ناکامی سے دو چار ہونے کے بعد وہ مایوس ہو جاتے ہیں یا احتجاج و فریاد کے مشغلہ میں لگ جاتے ہیں۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد کے لیے نیا منصوبہ بنائیں، وہ ’’اگلی ٹرین‘‘سے چل کر اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔
ایک شخص جس سے آپ کی مخالفت ہو گئی ہو اور ٹکراؤ کا طریقہ جس کو’’درست‘‘کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہو، آپ اس کے بارے میں اپنا رویہ بدل دیجئے۔ اس کو نرمی کے طریقہ سے متاثر کرنے کی کوشش کیجئے۔ عین ممکن ہے کہ پرانے طریقے نے جس کو آپ کا دشمن بنا رکھا تھا، نئے طریقہ کے بعد وہ آپ کا ایک کارآمد دوست ثابت ہو۔ آپ کہیں ملازم ہیں اور وہاں آپ کی ملازمت ختم کر دی جاتی ہے۔ آپ اس کے پیچھے نہ پڑئیے بلکہ دوسرے کسی میدان میں اپنے لیے ذریعہ معاش تلاش کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہو سکتا ہے کہ نیا کام آپ کے لیےپہلے سے زیادہ نفع بخش ثابت ہو۔ کوئی آپ کا حق نہیں دیتا۔ اس سے آپ کی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ سالوں گزر جاتے ہیں اور آپ اپنے حقوق کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ آپ اس کا خیال چھوڑ دیجئے اور اپنی محنت پر بھروسہ کیجئے۔ بہت ممکن ہے کہ اپنی محنت کو کام میں لا کر آپ خود وہ چیز حاصل کر لیں جس کو آپ دوسروں سے مانگ کر پانا چاہتے تھے۔
زندگی کے بیشتر مسائل تنگ نظری کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر آدمی اپنے ذہن میں وسعت پیدا کر لے تو اس کو معلوم ہو کہ یہاں سفر کے لیے ایک سے زیادہ’’گاڑیاں‘‘موجود ہیں— جو چیز وہ مقابلہ آرائی کے ذریعہ حاصل نہ کر سکا اس کو وہ باہمی جوڑ کے ذریعہ حاصل کر سکتا تھا۔ جہاں حقوق طلبی کا طریقہ مقصد تک پہنچانے میں ناکام رہا وہاں وہ محنت کا طریقہ اختیار کر کے اپنی منزل تک پہنچ سکتا تھا۔ جن لوگوں کی باتوں پر مشتعل ہو کر وہ ان پر قابو نہ پا سکا، وہ ان کی باتوں پر صبر کر کے انھیں جیت سکتا تھا۔