شوق کافی ہے
استاد یوسف دہلوی (م 1977) مشہور خوشنویس تھے۔ ان کو فن خطاطی پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار جلی خط کا مقابلہ ہوا۔ جمنا کے کنارے ریت کے میدان میں بہت سے خطاط جمع ہوئے۔ استاد یوسف آئے تو ان کے ہاتھ میں بانس کا ایک بڑاٹکڑا تھا۔ انہوں نے بانس سے ریت کے اوپر لکھنا شروع کیا۔ الف سے ش تک پہنچے تھے کہ تقریباً ایک فرلانگ کا فاصلہ ہوگیا۔ لوگوں نے کہا کہ بس کیجئے۔ استاد یوسف نے کہا: میں نے جو لکھا ہے اس میں رنگ بھردو اور پھر ہوائی جہاز سے چھوٹے سائز میں ان کا فوٹو لے لو۔ مجھے یقین ہے کہ فوٹو میں وہ خط رہے گا جو میرا اصل خط ہے۔ اس کے بعد کسی او رکو اپنا فن پیش کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے گئے تھے۔ وہاں شاہ سعود کی آمد پر ان کو ایک محراب کا مضمون لکھنے کے لیے دیا گیا۔ استقبال کی تیاریوں کا بچشم خود معائنہ کرنے لیے گورنر جنرل آئے۔ اس دوران انہوں نے استاد یوسف کا لکھا ہوا محراب بھی دیکھا۔ اس کے شان خط کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کس خطاط نے لکھا ہے۔ چنانچہ استاد یوسف کو بلایاگیا۔ گورنر جنرل نے ان کے کام کی تعریف کی اور پوچھا کہ اس کو لکھنے میں آپ کو کتنا وقت لگا۔ استاد یوسف نے کہا کہ سات دن۔ گورنر جنرل نے فوراً اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ استادکوان کی خدمت کے اعتراف میں سات ہزار روپے پیش کرو۔ چنانچہ اسی وقت ان کو اتنی رقم کا چیک دے دیا گیا۔
استاد یوسف سے ایک شخص نے پوچھا کہ خوش نویسی کا فن آپ نے کس استاد سے سیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی سے نہیں۔ ان کے والد خود ایک مشہور خوش نویس تھے۔ مگر انہوں نے اپنے والد کی شاگردی بھی نہیں کی۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میں نے خوش نویسی کا فن لال قلعہ سے سیکھا ہے۔ لال قلعہ میں مغل دور کے استادوں کی وصلیاں (تختیاں) رکھی ہوئی ہیں۔ ان تختیوں میں قطعات لکھے ہوئے ہیں جو فن خطاطی کے شاہکار نمونے ہیں۔ استاد یوسف دس سال تک برابر یہ کرتے رہے کہ لال قلعہ جا کر ان تختیوں کو دیکھتے۔ ہر روز ایک قطعہ اپنے ذہن میں بٹھا کر واپس آتے۔ اس کو اپنے قلم سے بار بار لکھتے۔ اور پھر اگلے دن اپنا لکھا ہوا کاغذ لے کر لال قلعہ جاتے۔ وہاں کی محفوظ تختی سے اپنے لکھے ہوئے کو ملاتے اور اس طرح مقابلہ کرکے اپنی غلطیوں کی اصطلاح کرتے۔ اس طرح مسلسل دس سال تک ہر روز لال قلعہ کی قطعات کی تختیوں سے وہ خود اپنی اصلاح لیتے رہے اور ان کو دیکھ دیکھ کر مشق کرتے رہے۔ یہی دس سالہ جدوجہد تھی جس نے انہیں استاد یوسف بنادیا۔
اگر آدمی کے اندر شوق ہو تو نہ پیسہ کی ضرورت ہے اور نہ استاد کی ، نہ کسی اور چیز کی۔ اس کا شوق ہی اس کے لیے ہر چیز کا بدل بن جائے گا۔ وہ بغیر کسی چیز کے سب چیز حاصل کر لے گا۔