اپنی کمیوں کو جانئے

وہ بڑھاپے کی منزل میں تھا۔ مگر اس نے شادی نہیں کی تھی ، اس لیے کہ اس کو ایک آئیڈیل رفیقۂ حیات کی تلاش تھی۔ لوگوں نے پوچھا : کیا آپ کو زندگی بھر کوئی ایسی خاتون نہیں ملی جو آئیڈیل رفیقۂ حیات بن سکتی ہو۔ اس نے جواب دیا : ایک خاتون ایسی ملی تھی مگر مشکل یہ تھی کہ وہ بھی اپنے لیے ایک آئیڈیل شوہر تلاش کر رہی تھی— اور بدقسمتی سے میں اس کے معیار پر پورا نہ اتر سکا۔

لوگ عام طور پر دوسروں کی کمیوں کو جاننے کے ماہر ہوتے ہیں اس لیے ان کا کسی سے نباہ نہیں ہوتا۔ اگر آدمی اپنی کمیوں کو جان لے تو اس کو معلوم ہو کہ وہ بھی اسی بشری مقام پر ہے جہاں وہ دوسرے کو کھڑا ہوا پاتا ہے۔ اپنی کمیوں کا احساس آدمی کے اندر تواضع اور اتحاد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اس کے بر عکس، اگر وہ صرف دوسروں کی کمیوں کو جانتا ہو تو اس کے اندرگھمنڈپیدا ہو گا اور کسی سے نباہ کرنا اس کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی ایک آدمی میں ساری خصوصیات جمع نہیں ہوتیں۔ کسی میں کوئی خصوصیت ہوتی ہے اور کسی میں کوئی خصوصیت۔ پھر جس شخص میں کوئی ایک خصوصیت ہوتی ہے اس کے اندر اسی نسبت سے کچھ اور خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں جو گویا اس خصوصیت کا ضمنی نتیجہ ہوتی ہیں مثلاً ایک شخص اگر بہادر ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر شدت ہو گی۔ ایک شخص شریف ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر نرمی ہو گی۔ ایک شخص حساس ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر غصہ ہو گا۔ ایک شخص ذہین ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر تنقیدی مادہ ہو گا۔ ایک شخص عملی صلاحیت زیادہ رکھتا ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر فکری استعداد کم ہو گی، وغیرہ۔

ایسی حالت میں قابل عمل بات صرف ایک ہے۔ ہم جس شخص کے ’’روشن پہلو ‘‘سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں اس کے ’’ تاریک پہلو ‘‘ کو نظر انداز کریں۔ یہی واحد تدبیر ہے جس سے ہم کسی کی صلاحیتوں کو اپنے لیے کارآمد بنا سکتے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات ہوں یا مالک اور ملازم کے تعلقات یا دکان دار اور شرکت دار کے تعلقات ہر جگہ اسی اصول کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کو ’’ پھول ‘‘ لینا ہے تو ہم کو ’’ کانٹے ‘‘ کو بھی برداشت کرنا ہو گا۔ جس کے اندر کانٹے کی برداشت نہ ہو اس کے لیے اس دنیا میں پھول کا مالک بننا بھی مقدرنہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ تنہا آدمی کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ بڑا کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مطلوبہ کام کی پشت پر کئی آدمیوں کی صلاحیتیں ہوں۔ اسی ضرورت نے مشترک سرمایہ کی کمپنیوں کا تصور پیدا کیا ہے۔ لیکن کئی آدمیوں کامل کرکسی مقصد کی تکمیل کے لیے جہدوجہد کرنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کے افراد میں صبر اور وسعتِ ظرف کا مادہ ہو۔ وہ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے نہ الجھیں۔ وہ نا خوش گوار باتوں کو یاد رکھنے کے بجائے نا خوش گوار باتوں کو بھلانے کی کوشش کریں۔ معیار پسندی بہت اچھی چیز ہے مگر جب معیار کا حصول ممکن نہ ہو تو حقیقت پسندی سب سے بہتر طریق عمل ہوتا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom