غلط اقدام
لیما(Lima)جنوبی امریکا کا ایک شہر ہے۔ یہاں ایک غریب عورت اپنے چار بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ مقامی طور پر وہ کوئی اچھا روزگار پانے میں ناکام رہی۔ اس نے سنا تھا کہ شمالی امریکا (USA)بہت خوش حال ملک ہے۔ اس نے حصول معاش کے لیے وہاں جانے کا ارادہ کیا۔ مگر اس کے پاس ہوائی جہاز کا کرایہ نہیں تھا۔ اس نے یہ تدبیر کی کہ اپنے آپ کو سوٹ کیس میں بند کیا اور اس سوٹ کیس کو کسی نہ کسی طرح لیما سے لاس انجلس جانے والے ہوائی جہاز پر بطورلگیج سوار کرا دیا۔
جہاز لاس انجلس پہنچا۔ اس کا سامان حسب معمول نکال کر مخصوص مقام پر لایا گیا جہاںہر آدمی پہچان کر اپنا سامان لے لیتا ہے۔ مگر ایک سوٹ کیس کا کوئی لینے والا نہیں ملا۔ بالآخر پولیس نے اس سوٹ کیس کو کھولا تو اس کے اندر مذکورہ عورت کی لاش بند تھی۔ یو پی آئی (United Press International)کی خبر کا آخری فقرہ یہ تھا:
Detectives said the woman may have been crushed by the weight of other luggage.
تفتیش کرنے والوں نے کہا کہ عورت غالباً دوسرے سامانوں کے بوجھ کے نیچے کچل کر مر گئی(ٹائمس آف انڈیا، 12 جنوری 1985)
یہ واقعہ زندگی کی ایک حقیقت کو بتاتا ہے۔ یہ حقیقت کہ منزل تک پہنچنے کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ آدمی کسی نہ کسی طرح ایک اقدام کر ڈالے۔ اقدام کی کامیابی کے لیے بہت سے دوسرے اسباب کی موافقت ضروری ہے۔ یہ دوسرے اسباب اگر موافقت کے لیے موجود ہوں تو اقدام کامیاب ہو گا اور اگر دوسرے اسباب موافقت نہ کریں تو اقدام سراسر ناکام ہو کر رہ جائے گا۔
مذکورہ واقعہ میں عورت کا اقدام ایک انفرادی اقدام تھا۔ اس غلط اقدام کا نتیجہ اسے انفرادی طور پر بھگتنا پڑا۔ مگر ایک لیڈر جب کسی قوم کو اقدام کی طرف لے جاتا ہے تو یہ ایک اجتماعی اقدام ہوتا ہے اس کا انجام پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لیڈر کو مذکورہ خاتون کے مقابلہ میں کروروںگنا زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ لیڈر کے لیے غلط اقدام صرف غلط اقدام نہیں بلکہ وہ ایسا سنگین جرم ہے جس کے مقابلہ میں کوئی عذر قابل سماعت نہیں ہو سکتا۔
غلط اقدام سے کروروں گنا زیادہ بہتر ہے کہ آدمی کوئی اقدام ہی نہ کرے۔