صبر ایک مثبت عمل
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صبر ایک منفی عمل ہے مگر یہ سراسر غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر ایک مثبت عمل ہے بلکہ وہ مثبت عمل کی بنیاد ہے۔ کیوں کہ صبر کے بغیر اس دنیا میں کوئی مثبت عمل نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دور میں اطراف عرب کے رئیسوں اور بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط روانہ کیے۔ آپ کا یہ عمل واضح طور پر ایک مثبت عمل تھا۔ مگر اس مثبت عمل کی قیمت صبر تھی۔ اس سے پہلے آپ کو صبر کرنا پڑا۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ وہ حالات پیدا ہوں جن میں مذکورہ قسم کا مثبت عمل انجام دیا جا سکے۔
یہ ایک معلوم بات ہے کہ رئیسوں اور بادشاہوں کے نام یہ خطوط صلح حدیبیہ کے بعد روانہ کیے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام صلح حدیبیہ سے پہلے بھی ہو سکتا تھا۔ پھر آپ نے اس کو صلح حدیبیہ کے بعد کیوں انجام دیا۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے پہلے آپ جنگ وقتال کے حالات میں گھرے ہوئے تھے۔ صبح وشام دشمنوں کے حملہ کاخطرہ لگا رہتا تھا اورآپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی ساری توجہ دفاعی کاموں میں خرچ ہو رہی تھی۔ ایسے غیر معتدل حالات میں حکمرانوں کے نام دعوتی مہم کا منصوبہ بنانا اور اس کی تعمیل کرنا عملاً سخت دشوار تھا۔
صلح حدیبیہ حقیقۃً مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کے درمیان دس سال کا نا جنگ معاہدہ (No war pact) تھا۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد حالات بالکل معتدل ہو گئے۔ اس کے بعد فوراً آپ نے حکمرانوں کے نام دعوت نامے بھیجنے کامنصوبہ بنایا اور اس کی تعمیل فرمائی۔ جس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر کے بغیر کوئی مثبت عمل ممکن نہیں۔ اگر آپ کو داعی بننا ہے تو مدعو کے ساتھ تمام جھگڑوں کو یک طرفہ طور پر ختم کرنا ہو گا۔ اگر آپ کو متواضع اخلاق اختیار کرنا ہے تو اپنے سینہ کو تکبر کا قبرستان بنانا ہو گا۔ اگر آپ کو لوگوں کا خیر خواہ بننا ہے تو اپنے اندر اٹھنے والے حسد کے جذبات کو دبانا ہو گا۔ اگر آپ لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا چاہتے ہیں تو اپنے اندر پیدا ہونے والے انتقامی جذبات کو ذبح کرنا ہو گا۔ اور یہ سب وہ چیزیں ہیں جو صبر سے تعلق رکھتی ہیں۔ صبر کے بغیر ان کا حصول ممکن نہیں۔