جینے کا راز
ایک مسلمان لیڈر نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے نام ایک خط لکھا۔ اس میں انہوں نے یہ شکایت کی کہ مسلم اقلیت کے ساتھ ہندوستان میں ظلم اور امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر اس صورتِ حال کو ختم نہ کیا گیا تو ان کی پارٹی ستیہ گرہ شروع کر دے گی۔ اس کے جواب میں مسز اندرا گاندھی نے مکتوب نگار کو جو خط لکھا اس کا ایک جملہ یہ تھا :
No minority could survive if their neighbours of the majority were irritated.
کوئی اقلیت زندہ نہیں رہ سکتی اگر اس کی پڑوسی اکثریت مشتعل ہو۔ (ہندوستان ٹائمز 21 فروری 1983)
اگر بالکل غیر جانبدار ہو کر دیکھا جائے تو وزیر اعظم اندرا گاندھی کا یہ جملہ صورتِ حال کی نہایت صحیح ترجمانی ہے۔ نیز اسی کے اندر مذکورہ مسئلہ کا حقیقی حل بھی چھپا ہوا ہے۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ مختلف اسباب سے ایک دوسرے کے خلاف ناراضگی کے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں۔ کوئی آگے بڑھ گیا ہے تو دوسروں میں اس کے خلاف حسد کا جذبہ ، کسی کو زیادہ مل گیا ہے تو اس کے مقابلہ میں اپنی محرومی کا احساس، کسی سے شکایت کی کوئی بات ہو جائے تو اس کے خلاف غصہ اور انتقام ، وغیرہ۔ اس قسم کے جذبات انتہائی عام ہیں او روہ ہر سماج میں بلکہ ہر گھر میں موجود ہوتے ہیں۔ مگر عام حالات میں وہ دلوں کے اندر چھپے رہتے ہیں۔ لوگوں کی روز مرہ کی مصروفیات بھی اس کے ابھرنے میں رکاوٹ بنی رہتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آجائے تو یہ جذبات ظاہر ہو جاتے ہیں۔
سماجی امن درحقیقت اس کا نام ہے کہ ان منفی جذبات کو دبا رہنے دیا جائے۔ اس کے برعکس، سماجی بدامنی یہ ہے کہ کوئی نادانی کر کے ان چھپے ہوئے جذبات کو مشتعل کر دیا جائے۔
یہ زندگی کی ایک اٹل حقیقت ہے۔ موجودہ مقابلہ کی دنیا میں کوئی معاشرہ حتی کہ کوئی خاندان اس سے خالی نہیں ہو سکتا۔ ایسی حالت میں زندگی کا راز صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ صبر اور حکمت کا طریقہ اختیار کر کے دبے ہوئے جذبات کو دبا رہنے دیا جائے۔ ان کو ہر قیمت پر بروئے کار آنے سے روکا جائے۔
زندگی کا یہی راز ہے جس کو ایک مفکر نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے— اس دنیامیں ہر آدمی کے پاس ایک وسیع قبرستان ہونا چاہیے جس میں وہ لوگوں کے قصوروں کو دفن کر سکے۔