کامیابی کا راز یہاں ہے

یہ مدراس کا واقعہ ہے۔ سمندر کے ساحل پر دو نوجوان نہا رہے تھے۔ دونوں دوست تھے اور تیراکی اچھی جانتے تھے۔ وہ پانی کے اوپر اوپر بھی تیرتے تھے اور ڈبکی لگا کرپانی کے اندر اندربھی دور تک نکل جاتے تھے۔ دونوں تیرتے ہوئے دور تک چلے گئے۔ اس کے بعد موجوں کا ایک تھپیڑا آیا۔ دونوں اس کی زد میں آگئے۔ ایک نوجوان زیادہ ماہر تھا— ’’میں موجوں سے لڑ کر پار ہو جاؤں گا‘‘۔اس نے کہا اور موجوں کے مقابلہ میں اپنی تیراکی کا کمال دکھانے لگا۔ مگر موجوں کا زور زیادہ تھا،وہ اپنے طاقت ور بازوؤں کے باوجود ان سے نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اور ڈوب کرمرگیا۔

دوسرا نوجوان بھی طوفان کی زد میں آیا۔ تھوڑی دیر اس نے اپنے ساتھی کی پیروی کی۔ اس کے بعد اس نے محسوس کر لیا کہ موجوں کی شدت اس سے زیادہ ہے کہ میرے بازو اس کا مقابلہ کر کے نکلنے میں کامیاب ہو سکیں۔ اچانک اس کو ایک بات یاد آئی۔ اس نے سنا تھاکہ موجیں خواہ کتنی ہی شدید ہوں ان کا زور اوپر اوپر رہتا ہے۔ پانی کی نیچے کی سطح پھر بھی ساکن رہتی ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنا طریق عمل بدل دیا۔ اوپر کی موجوں سے لڑنے کے بجائے اس نے نیچے کی طرف ڈبکی لگائی اور پانی کی نچلی سطح پر پہنچ گیا۔ یہاں پانی نسبتاً ٹھہرا ہوا تھا اور اس کے لیے ممکن تھا کہ وہ اپنے تیرنے کے فن کو کامیابی کے ساتھ استعمال کر سکے۔ اس نے ساحل کی طرف تیرنا شروع کر دیا۔ اگرچہ وہ کافی تھک چکا تھا۔ تاہم ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے بالآخر وہ سمندر کے کنارے پہنچ گیا۔ کنارے پہنچتے پہنچتے وہ بےہوش ہوچکا تھا۔ سمندر کے کنارے چند ملاح اپنی کشتیاں لیے ہوئے موجود تھے۔ انھوں نے فوراً اس کو دیکھ کر اٹھایا اورخشکی پرلے گئے۔ اس کے بعد اس کو ہسپتال پہنچایاگیا۔ وہاں چنددن زیرِعلاج رہ کر وہ اچھا ہو گیا— جس نے موجوں سے لڑنے کو تیراکی سمجھا تھا وہ ہلاک ہو گیااور جس نے موجوں سے کترا کر نکلنے کا طریقہ اختیار کیا وہ کامیاب رہا۔

یہی معاملہ پوری زندگی کا ہے۔ زندگی میں طرح طرح کے طوفان آتے ہیں۔ مگرعقل مندی یہ نہیں ہے کہ جو تھپیڑا سامنے آئے بس آدمی اس سے لڑناشروع کر دے۔ عقل مندی یہ ہے کہ آدمی جائزہ لے کر دیکھے کہ کامیابی کے ساتھ ساحل تک پہنچنے کا زیادہ قابلِ عمل راستہ کون سا ہے۔ اور جو راستہ قابلِ عمل ہو اسی کو اختیار کرے خواہ وہ موجوں کی سطح سے اتر کر نیچے نیچے اپنا راستہ بناناکیوں نہ ہو۔ یہ قدرت کا انتظام ہے کہ دریاؤں اور سمندروں میں جو تیز وتند موجیں اٹھتی ہیں وہ پانی کے اوپر اوپر رہتی ہیں۔ پانی کے نیچے کی سطح ساکن رہتی ہے۔ چنانچہ بھنور کے وقت مچھلیاں نچلی سطح پر چلی جاتی ہیں۔ یہ قدرت کاسبق ہے۔ اس طرح قدرت ہم کو بتاتی ہے کہ طوفانی موجوں کے وقت ہم کو کیا طریق عمل اختیارکرنا چاہیے۔ زندگی میں کبھی طوفان سے لڑنا بھی پڑتا ہے۔ مگر اکثر اوقات کامیابی کا راز یہ ہوتا ہے کہ آدمی طوفانی سیلاب سےکتراکرنکل جائے وہ طوفان کی زد سے بچتا ہوا اپنا راستہ بنائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom