فرق کا سبب
ستمبر 1986 میں سی اول (کوریا ) میں دسویں ایشیائی کھیل 10th Asian Games ہوئے۔ اس 16 روزہ مقابلہ میں ساؤتھ کوریا کو مجموعی طور پر سب سے زیادہ میڈل ملے۔ چند ملکوں کی تفصیل یہ ہے :
(Gold) (Silver) (Bronze) (Total)
China 94 82 46 222
S. Korea 93 55 76 224
Japan 58 76 77 211
Iran 6 6 10 22
India 5 9 23 37
Philippines 4 5 9 19
Thailand 3 10 13 26
Pakistan 2 3 4 9
اس نقشہ کے مطابق تین قوموں (چین ، کوریا ، جاپان ) نے 270 سونے کے میڈل میں سے 245 میڈل حاصل کیے۔ ساؤتھ کوریا کے مقابلہ میں ہندوستان بہت بڑا ملک ہے، مگر اوپر کے نقشہ سے ظاہر ہے کہ ہندوستان اس مقابلہ میں ساؤتھ کوریا سے بہت پیچھے رہا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نئی دہلی کے انگریزی اخبار انڈیا ایکسپریس (6اکتوبر 1986)نے لکھا ہے کہ کوریا والوں نے اپنے کھلاڑیوں کو چُننے کے لیے ایک کمپیوٹر کا استعمال کیا اور ہر کھیل کے لوگوں کی تربیت پر ایک ایک ملین ڈالر خرچ کیے۔ یہ تربیتی عمل دو سال تک جاری رہا۔ ہندوستان نے اپنا روایتی طریقہ ’’ کوشش کرو ، خواہ ہار جاؤ ‘‘ اختیار کیا ، جو اس کی پرانی بیماری ، علاقائیت اور اقربانوازی سے بھی پوری طرح خالی نہ تھا :
The Koreans used a computer to select their athletes and spent $ a million to train them for each discipline, for two years. India used familiar try-or-miss methods in which the old malady of parochialism and nepotism may not have been at a total discount.
دوسرے لفظوں میں یہ کہ کوریا والوں نے اپنے کھلاڑیوں کا انتخاب ان کے ذاتی جوہر کو دیکھ کر کیا۔ اور ہندوستان میں کھلاڑیوں کا انتخاب زیادہ تر تعلقات کی بنیاد پر کیا گیا۔ کوریا نے بہت سے کھلاڑیوں کے بارے میں ضروری معلومات کمپیوٹر کے اندر بھر دیں اور پھر کمپیوٹر نے مشینی غیرجانبداری کے ساتھ جو فیصلہ کیا اس کو مان لیا۔ اس کے برعکس، ہندوستان میں انتخاب کی بنیاد یہ تھی کہ یہ میرا رشتہ دار ہے،یہ میرے علاقہ کا آدمی ہے۔ جہاں طریقہ میں اس قسم کا فرق پایا جائے وہاں نتیجہ میں فرق پیدا ہو جانا لازمی ہے۔