آغاز نیچے سے
ایک شخص جس کی داڑھی میں سفیدی آچکی تھی، رکروٹنگ آفس میںداخل ہوا،’’مجھے سپاہی کی حیثیت سے بھرتی کر لیجئے‘‘اس نے کہا۔
’’مگرتمھاری عمر کیا ہے‘‘سرجنٹ نے پوچھا۔
’’باسٹھ سال‘‘۔
’’تم اچھی طرح جانتے ہو کہ باسٹھ سال کی عمر سپاہی بننے کے لیے بہت زیادہ ہے‘‘۔
’’سپاہی کے لیے یہ عمر زیادہ ہو سکتی ہے‘‘آدمی نے کہا ’’مگر کیا آپ کو کسی جنرل کی ضرورت نہیں؟‘‘
ایک انگریزی رسالہ (مئی 1982)میں مذکورہ واقعہ چھپا ہے اوراس کا عنوان طنزیہ طور پر ان لفظوں میں قائم کیا گیا ہے— اوپر سے آغاز
Starting at the top.
ایک شخص جنرل کے عہدہ سے اپنی فوجی زندگی شروع کرنا چاہے تو وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔ یہی معاملہ عام زندگی کا ہے۔ یہاں کسی کے لیے چھلانگ ممکن نہیں۔ جس طرح درخت کا آغاز بیج سے ہوتا ہے اسی طرح زندگی کی تعمیر کا آغاز بھی ابتدائی نقطہ سے ہوتا ہے۔ آخری نقطہ سے آپ اپنی زندگی کا آغاز نہیں کر سکتے۔
تجارت روپیہ لگانے سے شروع ہوتی ہے،نہ کہ نفع کمانے سے۔ ڈاکٹری کی تعلیم محنت سے شروع ہوتی ہے،نہ کہ بازار میں شان دار بورڈ لگانے سے۔ مکان کی تعمیر بنیاد سے شروع ہوتی ہے،نہ کہ چھت ڈالنے سے۔ کھانے کا آغاز فصل بونے سے ہوتا ہے،نہ کہ دسترخوان لگانے سے۔ کارخانہ کاآغازمشین کی فراہمی سے ہوتا ہے،نہ کہ تیار مال بیچنے سے وغیرہ۔
اسی طرح اجتماعی معاملات میں آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ افراد کے اندر مقصد کا شعور ابھارا جائے۔ ان کو محنتی اور دیانت دار بنایا جائے، ان کے اندر برداشت اور اتحاد کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ قوم کے افراد میں ’’قابل لحاظ حد تک‘‘ان صلاحیتوں کو پیدا کرنے سے پہلے اگر عملی اقدام شروع کر دیا جائے تو وہ صرف ناکامی پر ختم ہو گا۔ اس قسم کی قومی تعمیر کی مثال بالکل ایسی ہو گی جیسے دیوار بنانے سے پہلے چھت کھڑی کرنے کی کوشش۔ ایسی چھت ہمیشہ اٹھانے والے کے سر پر گرتی ہے۔ اسی طرح افراد کی تعمیر سے پہلے قومی اقدام صرف ناکامی اور بربادی پر ختم ہوتا ہے۔