تاریخ سازی
بی ٹکمین (B. Tuchman) کا قول ہے کہ تاریخ غلط اندازہ کا ظہور ہے :
History is the unfolding of miscalculation.
اس کا مطلب یہ ہے کہ حال کے اعتبار سے مبصرین تاریخ کے بارے میں ایک رائے قائم کرتے ہیں۔ مگر حال جب مستقبل بنتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندازے بالکل غلط تھے۔ مستقبل اکثر حالات میں اس سے مختلف صور ت میں ظاہر ہوتا ہے جو ابتدائی طور پر سمجھنے والوں نے اس کے بارے میں سمجھا تھا۔
مثال کے طور پر 6 ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان صلح حدیبیہ ہوئی تھی۔ اس وقت قریش کے تمام لوگوں نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں نے خود اپنے خاتمہ کے کاغذ پر دستخط کر دیے ہیں۔ مگر بعد کے سالوں نے بتایا کہ اس بظاہر ہار میں فتح کا عظیم مستقبل چھپا ہوا تھا۔ موجودہ زمانہ میں 1945میں جب امریکا کے جنگی جہاز فضا میں چنگھاڑتے ہوئے جاپان پر ایٹم بم گرانے کے لیے روانہ ہوئے تو امریکا كا اندازہ یہی تھا کہ وہ جاپان کو ہمیشہ کے لیے راکھ کا ڈھیر بنا رہا ہے۔ مگر اس واقعہ کے 40 سال بعد لوگوں نے دیکھا کہ جاپان دنیا کی سب سے بڑی صنعتی طاقت بن کر ابھر آیا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کو بنانے والا خود انسان نہیں ، یہ دراصل خدا ہے جو انسانی تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق کوئی ایک یا دوسری صورت دیتا ہے۔ تاریخ کی صورت گری کا فیصلہ غیب سے ہوتا ہے،نہ کہ ظاہری احوال سے۔
تاریخ کے اس مطالعہ میں ان لوگوں کے لیے تسلی کا سامان ہے جن کے متعلق دنیا کے مبصرین سمجھ لیں کہ وہ بجھ چکے ہیں یا ان کو مٹایا جا چکا ہے۔ کیوں کہ واقعات بتاتے ہیں کہ اس دنیامیں بظاہر بجھی ہوئی راکھ سے شرارے ظاہر ہو جاتے ہیں۔ یہاں ایک مٹی ہوئی شئی دوبارہ زندہ اور طاقتور بن کر زمین پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہاں بظاہر ایک ختم شدہ طاقت (Spent force) ازسرِ نو زندہ طاقت بن جاتی ہے۔
ظاہری حالات سے کبھی مایوس نہ ہوں۔ عین ممکن ہے کہ تاریخ اگلا ورق الٹے تو ایسا انجام سامنے آئے جو ظاہری حالات سے بالکل مختلف ہو۔