کہانی بن گئی
سرونسٹن چرچل جو بعد کو برطانیہ کے وزیر اعظم بنے،افریقہ کے بوئروں کی جنگ (1899)میں برطانوی اخبار مارننگ پوسٹ کے جنگی نامہ نگار تھے۔ اس دوران ایک واقعہ پیش آیا جس کو جنوبی افریقہ کے سابق وزیر اعظم جان کرسچین سمٹس نے چرچل کے عروج کے زمانہ میں سنایا۔ وہ چرچل کی موجودگی میں وائٹ ہاؤس(واشنگٹن) کے ڈنر کے موقع پر تقریر کر رہے تھے۔
انھوںنےبتایا کہ بوئر وار کے دوران مسٹرچرچل برطانوی سپا ہیوں کے ایک دستہ کے ساتھ بوئروں کے ہاتھوں پکڑے گئے۔ بوئروں نے سپاہی اور اخباری نامہ نگار میں کوئی تمیز نہیں کی۔ انھوں نے سب کو ایک ساتھ جیل میں ڈال دیا۔
مسٹرچرچل نےجیل سےاس واقعہ کی رپورٹ مجھے بھیجی اور اپنی فوری رہائی پر زور دیا۔ کیونکہ بین الاقوامی رواج کے مطابق اخباری رپورٹر کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے اس خط پر کاروائی شروع کی مگر اس سے پہلے کہ اس کیس کا فیصلہ ہو مسٹر چرچل کسی نہ کسی طرح جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
اس واقعہ کے کافی عرصہ بعد میری ملاقات مسٹر چرچل سے ہوئی جو اس وقت برطانوی کا بینہ کے رکن تھے۔ میں نے وہ واقعہ یاد دلایا تو مسٹر چرچل بولے:آپ نے اچھا کیا کہ میرے خط پر میری درخواست کے باوجود فوری کاروائی نہ کی۔ اگر آپ جلدی میں میری رہائی کا انتظام کر ا دیتے تو میرا نوہزار پونڈ کا نقصان ہو جاتا۔’’وہ کیسے‘‘میں نے حیران ہو کر پوچھا۔’’وہ اس طرح کہ میں نے اپنی جیل سے فرار ہونے کی داستان ایک رسالہ کے لیے لکھ کر نو ہزار پونڈ میں فروخت کیا“۔
مسٹرچرچل اگر آسانی سے رہا ہو جاتے تو یہ واقعہ ایک سادہ واقعہ ہوتا وہ کہانی نہ بنتا۔ مگر گرفتاری اور اس کے بعد جیل سے فرار نے اس کو کہانی بنا دیا۔
زندگی میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ پیش آتا ہے جو بظاہر نا خوش گوار ہوتا ہے۔ آدمی اس کو دیکھ کر بے حوصلہ ہونے لگتا ہے۔ مگر بعد کو جب آخری نتیجہ سامنے آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی اندازہ بالکل غلط تھا۔ نا خوش گوار پہلو میں ایک خوش گوار پہلو چھپا ہوا موجودہ تھا جو واقعہ اپنی ابتدا میں نقصان کا واقعہ نظر آتا تھا وہ اپنی انتہا میں فائدہ کا واقعہ بن جاتا ہے۔