ناموافق حالات
جانوروں کو جنگل کے ماحول میں ہر وقت اپنے دشمنوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ ہر وقت چوکنے رہتے ہیں۔ یہ چوکنا رہنا ان کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی فطری صلاحیتیں ابھرتی ہیں۔ ان کی شخصیت ختم ہونے نہیں پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ جانوروں کو پالنے کے لیے جو بڑے بڑے پارک بنتے ہیں ان میں مصنوعی طور پر ان کے لیے خطرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مثلاً خرگوش کے پارک میں بلی ڈال دی جاتی ہے یا ہرن کے پارک میں ایک شیر یا ایک بھیڑیا ڈال دیا جاتا ہے۔ اس طرح جانوروں کی چوکسی( Alertness)باقی رہتی ہے۔ وہ اپنے تحفظ کی خاطرہروقت زندہ اور سرگرم رہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو دھیرے دھیرے وہ بجھ کر رہ جائیں گے۔
یہی بات انسانوں کے لیے بھی صحیح ہے۔ انسان کے اندر بے شمار صلاحیتیں ہیں۔یہ صلاحیتیں عام حالات میں سوئی رہتی ہیں۔ وہ بیدار اس وقت ہوتی ہیں جب ان کو جھٹکا لگے۔ جب وہ عمل میں آئیں۔ کسی بھی مقام پر اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ جن خاندانوں میں آسودگی کے حالات آجاتے ہیں اس كے افراد بےحس اور کم عقل ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، جن خاندانوں کو مشکل حالات گھیرےہوئے ہوں ان کے افراد میں ہر قسم کی ذہنی اور عملی صلاحیتیں زیادہ اجا گر ہوتی ہیں۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ اپنے ماحول میں عدم تحفظ کی صورت حال میں مبتلا ہیں۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مکہ اور مدینہ کے مسلمان اس سے کہیں زیادہ عدم تحفظ کی صورت حال میں مبتلا تھے۔ اگر عدم تحفظ کوئی ’’ برائی ‘‘ ہوتی تو یقیناً اللہ کا رسول اوراس کے اصحاب کہیں زیادہ اس کے مستحق تھے کہ اللہ انھیں اس برائی سے دور رکھے۔ مگر اللہ نے ایسانہیں کیا۔ بلکہ ان کو مسلسل عدم تحفظ کی صورت حال میں رکھا۔ ان کو اپنی زندگی میں کبھی چین اور آسودگی نہ مل سکی۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا نظام اللہ تعالیٰ نے جس ڈھنگ پر بنایا ہے وہ یہی ہے کہ یہاں دبنے سے ابھار پیدا ہو۔ مشکلوں کے مدرسہ میں انسان کی اعلیٰ تربیت ہو۔ غیرمحفوظ حالات کے اندر مستعدی کا ظہور ہو
تاریخ بتاتی ہے کہ انھیں لوگوں نے بڑی بڑی ترقیاں حاصل کیں جو حالات کے دباؤ میں مبتلا تھے۔ قدرت کا یہی قانون افراد کے لیے ہے اور یہی قوموں کے لیے۔