بدعنوانی
بمبئی میں ایک کئی منزلہ عمارت بنائی گئی۔ اس کا نام ’’آکاش دیپ‘‘ رکھا گیا۔ مگر جب وہ بن کر تیار ہوئی تو اچانک گر پڑی۔ بتایا جاتا ہے کہ گرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کی تعمیر میں سیمنٹ کا جز ء، مقررہ مقدار سے کم استعمال کیا گیا تھا۔
ایک ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر نے اس سلسلے میں اپنا بیان دیتے ہوئے کہا:
RCC construction is a scientific process which is excellent in the hands of qualified and experienced people, but dangerous if managed by incompetent engineers and contractors.
آرسی سی تعمیر ایک سائنسی طریقہ ہے جو بہت عمدہ ہے جب کہ و ہ لائق اور تجربہ کار لوگوں کے ہاتھ میں ہو مگر وہ اس وقت خطرناک ہوجاتا ہے جب اس کو استعمال کرنے والے نااہل انجینئر اور ٹھیکہ دار ہوں(ٹائمس آف انڈیا، 4 ستمبر 1983)
بظاہر یہ ایک صحیح اور خوب صورت بات معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر ایک مغالطہ چھپا ہوا ہے۔ یہ مغالطہ اس وقت کھل جاتا ہے جب کہ ہم نااہل (Incompetent)کی جگہ بدعنوان(Corrupt)کا لفظ رکھ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس قسم کے مسائل لوگوں کی حرص اور بدعنوانی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں،نہ کہ فنی عدم مہارت کی وجہ سے۔
بھاکڑا ڈیم ہندوستان کا اعلیٰ ترین سرکاری منصوبہ تھا۔ اس کی تعمیر میں ملک کے بہترین انجینئر لگا ئے گئے۔ مگر جب وہ بن کر تیار ہوا تو اس کی دیوار میں شگاف ہوگیا جس کی تعمیر میں دوبارہ کروروں روپیہ لگانا پڑا۔ اس قسم کے واقعات ہر روز ہمارے ملک میں ہورہے ہیں۔ یہ سب کام ہمیشہ فنی ماہرین کی نگرانی میں انجام پاتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حال ہے کہ سڑکیں بننے کے بعد جلد ہی خراب ہوجاتی ہیں۔ عمارتیں تیار ہونے کے ساتھ ہی قابل مرمت ہوجاتی ہیں۔ منصوبے تکمیل کو پہنچ کر غیر مکمل نظر آنے لگتے ہیں۔ اس قسم کے تمام واقعات کی وجہ بدعنوانی ہے،نہ کہ فنی مہارت کی کمی۔
بدعنوانی ایک نفسیاتی خرابی ہے اور فنی مہارت میں کمی ایک ٹیکنیکل خرابی۔ نفسیاتی خرابی کو ٹیکنیکل اصلاح کے ذریعہ دور نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں واقعتاً ایک بہتر سماج بنے تو افراد قوم کی نفسیاتی اصلاح کرنی ہوگی۔ صر ف ٹیکنیکل کورس میں اضافہ سے یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔