ایک تاثر
20 جنوری 1986 کو میں انڈین ائیر لائنز کی فلائٹ نمبر 439کے ذریعہ دہلی سے حیدر آباد گیا۔ جہاز کے اندر حسب معمول اعلانات شروع ہوئے تواناؤنسر نے دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی کہا:
Captain Mustafa is in command.
(کیپٹن مصطفٰي اس جہاز کے پائلٹ ہیں)۔ انڈین ائیر لائنز میں مَیں نے بہت سفر کیے ہیں مگر ’’کیپٹن مصطفیٰ ‘‘ جیسا لفظ پہلی بار سننے میں آیا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اب دیگر اعلیٰ سروسوں کے علاوہ اس ملک کی ہوائی سروسوں میں بھی داخل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ وہ اپنے پچھڑے پن کو ختم کرکے تیزی سے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ہندوستان کے مسلم لیڈر ہمیشہ اپنی قوم کے نوجوانوں کے بارے میں ’’نکالے جانے‘‘ کی خبریں دنیا کوسناتے ہیں۔ مگر یہ سراسر ناانصافی ہے۔ ان کو چاہیے کہ اسی کے ساتھ ’’داخل کیے جانے‘‘ کی خبریں بھی وہ دنیا کو سنائیں تاکہ لوگوں کو تصویر کا دوسرا رُخ بھی معلوم ہوسکے۔ مسلم قائدین کا یہ عمل یقینی طور پر غیر منصفانہ عمل ہے۔ اور غیر منصفانہ عمل کےلیے اس دنیا میں بربادی کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔
میں مانتا ہوں کہ اس ملک میں اگر ایسے واقعات ہیں کہ ایک ’’مصطفيٰ ‘‘ کو سروس میں لیا گیا ہے تو اسی کے ساتھ ایسا واقعہ بھی موجود ہے کہ کسی ’’مصطفيٰ‘‘کو سروس میں نہیں لیا گیا۔ مگر مجھے جس چیز سے اختلاف ہے وہ یہ کہ اس کو تعصب اور امتیاز قرار دیا جائے۔ یہ دراصل زندگی کی ایک حقیقت ہے،نہ کہ تعصب اور امتیاز۔
اصل یہ ہے کہ یہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے یہاں لازماً یہ ہونا ہے کہ افراد اور قوموں کے درمیان دوڑ جاری رہے۔ اور پھر کوئی آگے بڑھے اور کوئی پیچھے رہ جائے۔ چڑیا گھر میں جو جانور ہوتے ہیں وہ کچھ دن کے بعد سُست پڑ جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کے کٹہرے میں وقتی طور ان کے دشمن جانور ڈالے جاتے ہیں تاکہ ان کے لیے دوڑنے اور بھاگنے کا ماحول پیدا کیا جائے۔ یہ قدرت کا اصول ہے، اور مقابلہ اور مسابقت کے اسی اصول میں زندگی کا راز چھپاہوا ہے— ایک واقعہ کو قومی تعصب کہیں تو صرف شکایت کا ذہن بنتا ہے ، اسی واقعہ کو قومی مسابقت کہیے توعمل کا جذبہ بیدار ہونے لگےگا۔