پہلے شعور پیدا کیجئے

مسجد کا مؤذن فجر سے کچھ پہلے اٹھا۔ وہ کسی ضرورت سے مسجد کے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی دکان کھول رہا ہے۔ چوں کہ ابھی فضا میں اندھیرا چھایا ہوا تھا اور اتنے سویرے دکان کھولنا ایک غیر معمولی بات تھی،وہ ٹھہر کر دیکھنے لگا۔ ’’یہ آدمی اندھیرے میں دکان کے اندر داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے کیا کام کرے گا ‘‘ اچانک یہ سوال اس کے ذہن میں آیا۔ ایک لمحہ سوچنے کے بعد اس کے دل نے کہا کہ یہ شخص سب سے پہلے دکان کی لائٹ جلائے گا۔ کیوں کہ جب تک دکان کے اندر اندھیرا ہے وہ کوئی کام نہیں کر سکتا۔ اب وہ اپنے اندازہ کی تصدیق یا تردید جاننے کےلیے وہاں ٹھہر کر دکان دار کو دیکھنے لگا۔ مؤذن کا اندازہ صحیح نکلا۔ دکان کا دروازہ کھولتے ہی دکان دار کا ہاتھ سب سے پہلے بجلی کے بٹن پر پہنچا۔ معاً بعد دکان کے اندر روشنی ہو گئی۔ اب دكان دار اس كے اندر داخل هو كر اپنا كام كرنے لگا۔

اسی مثال سے ہم دین و ملت کے معاملہ کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ دینی یا ملّی کام کرنے کے لیے بھی سب سے پہلے ’’روشنی‘‘جلانے کی ضرورت ہے۔ یعنی شعور کی بیداری۔ اندھیرے مکان یا دکان کو اجالے میں لانے کےلیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ملت کے اندر کوئی حقیقی اور مفید کام وجود میں لانے کے لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ملت کے افراد کو ذہنی حیثیت سے باشعور بنایا جائے۔ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بیدار کیا جائے۔ افراد کے اندر شعور کی روشنی جلائے بغیر کوئی حقیقی کام نہیں کیا جا سکتا۔

آغاز سے پہلے اختتام کا اندازہ کر لیجئے

حاجیوں کا ایک قافلہ غار حرا کو دیکھنے کے لیے روانہ ہوا۔ غار حرا جس پہاڑ کے اوپر واقع ہے وہاں تک سڑک جاتی ہے۔ آدمی پہاڑ تک سواری سے جاتا ہے اور پھر وہاں سے پیدل پہاڑ پر چڑھتا ہے۔ قافلہ کے لوگ جب پہاڑپر چڑھنے لگے تو کچھ لوگوںنے احترام و تقدس کے جذبہ کے تحت سڑک کے پاس اپنے چپل اتار دئیے۔ جاتے وقت صبح کا وقت تھا اس لیے ننگے پاؤں اوپر جانے میں کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی۔ مگر جب وہ لوگ واپس لوٹے تو دوپہر ہو چکی تھی۔ پہاڑی کے سرخ پتھر تپنے لگے تھے۔ بغیر چپل والے لوگ سخت تکلیف کے ساتھ اس حال میں اترے کہ ان کے پیروں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ اس کی وجہ سے وہ کئی دن تک پریشان رہے۔

سفر خواہ پہاڑکا ہو یا زندگی کا، ہر ایک کی کامیابی کا ایک ہی اصول ہے اور وہ یہ کہ سفر کے آغاز میں سفر کے اختتام کا پورا اندازہ کر لیا جائے۔ جو شخص سفر کے شروع میں سفر کے آخری حالات کا اندازہ نہ کر سکے اس کے حصہ میں اکثر ایسی مشکلات آتی ہیں جو اس کے سفر کے مقصد کو بے معنی کر دیتی ہیں۔ خدا کا یہ قانون اتنا بے لاگ ہے کہ ایک مخلص آدمی بھی اس قسم کی غلطی کرنے کے بعد اس کے انجام سے بچ نہیں سکتا۔ اگر وہ اچھی نیت سے ایک ایسا اقدام کر بیٹھے جس کے عواقب پر اس نے غور نہ کیا ہو تو اس دنیا میں اس کے بُرے نتائج سے وہ بھی اسی طرح دو چار ہو گا۔ جس طرح ایک بدنیت شخص اس قسم کی غلطی کر کے دو چار ہوتا ہے۔ کسی کا اخلاص اس کی غلطی کے خلاف اس کا محافظ نہیں بن سکتا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom