اتنی عقل جانور کو بھی ہوتی ہے
قرآن میں آدم کے دوبیٹوں کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔ ایک بھائی نے غصہ میں آکر دوسرے بھائی کو قتل کر دیا۔ یہ کسی انسان کے قتل کا پہلا واقعہ تھا۔ قاتل کی سمجھ میں نہ آیا کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیا کرے۔ اس وقت اللہ نے ایک کوا بھیجا۔ اس نے مرے ہوئے کوے کو اس کے سامنے ’’دفن ‘‘کیا۔ اس نے اپنی چونچ اور پنجے سے زمین کھودی اور مردہ کوے کو اس کے اندر رکھ کر اوپر سے مٹی ڈال دی۔ یہ دیکھ کر قاتل بولا:افسوس ہے مجھ پر۔ میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو زمین میں چھپانے کی تدبیر کرتا(3:30-31)یہ نسل انسانی کے ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے۔ اس وقت سے اب تک برابر خدا یہ کررہا ہے کہ وہ حیوانات میں سے کسی حیوان کو ’’بھیج کر‘‘ہم کو ہماری زندگی کے بارے میں سبق دیتا ہے۔ مگر انسان مشکل ہی سے ایسا کرتا ہے کہ وہ اس قسم کے واقعات سے اپنے لیے سبق لے۔ یہاں ایک پرندے کا واقعہ نقل کیا جاتا ہے جس میں ہمارے آج کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔
ابابیل نے چھت کی لکڑی میں گھونسلا بنایا۔ گھونسلا مٹی کا تھا۔ نر اور مادہ دونوں تھوڑی تھوڑی گیلی مٹی اپنی چونچ میں لاتیں اور اس سے گھونسلے کی تعمیر کرتیں۔ لگاتار محنت کے بعد چند دن میں گھونسلا تیار ہو گیا۔ اب ابابیل نے اس کے اندر انڈہ دے دیا۔ ایک روز ابابیل کا جوڑا گھونسلے پر بیٹھا ہوا تھا، چار انڈے اور دو ابابیلوں کا بوجھ گھونسلے کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوا اور وہ لکڑی سے چھو ٹ کر نیچے گرپڑا۔ انڈے ٹوٹ کر برباد ہو گئے۔ اس کے بعد دیکھنے والوں نے دیکھا کہ دونوں ابابیلیں پوری چھت میں چاروں طرف اڑ رہی ہیں۔ وہ چھت کی لکڑیوں میں اپنے اگلے گھونسلے کے لیے زیادہ محفوظ جگہ تلاش کر رہی تھیں۔ بالآخر انھوں نے اپنے لیے ایک ایسی جگہ پالی جو غیر ہموارہونے کی وجہ سے گھونسلے کو زیادہ سنبھال سکتی تھی۔
پہلی بار ابابیلوں نے خالی مٹی کا گھونسلا بنایا تھا۔ اب دوسری بار انھوں نےجو مٹی لانی شروع کی اس میں گھاس ملی ہوئی تھی۔ پہلے تجربہ کے بعد انھوں نے صاف گارے کو ناکافی پایا تو انھوں نے گھاس ملے ہوئے گارے سے گھونسلا بنانا شروع کیا۔ گویا پہلے اگر خالی مٹی تھی تو اب آہن بستہ(Reinforced)مٹی گھونسلے کے لیے منتخب کی گئی۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ دوسرا گھونسلا زیادہ مضبوط اور جما ہوا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر قائم ہو گیا اور اس میں جو انڈے دیے گئے وہ محفوظ رہے یہاں تک کہ ان میں بچے نکل آئے۔ بچے اپنی ماں کے ساتھ اڑ کر فضا میں غائب ہو گئے۔ یہ واقعہ خورشید احمد بسمل صاحب(پیدائش 1947) کے اپنے مکان کا ہے جو تھنہ منڈی(راجوری، جموں) کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے19ستمبر 1979کو اپنا مذکورہ کمرہ دکھایا اور مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا— جانور کی پہلی کوشش اگر پہلی بار ناکام ہو جائے تو دوسری کوشش سے پہلے وہ یہ معلوم کرتا ہے کہ اس کے عمل میں کون سی کمی تھی جس نے اس کے منصوبہ کو ناکام بنا دیا۔ اور پھر زیادہ کامل منصوبہ کے تحت دوسری تعمیر کرتا ہے۔ مگر ہمارا’’آشیانہ‘‘گرتا رہتا ہے اور کبھی ہم کو احساس نہیں ہوتاکہ اپنی کمی کو معلوم کر کے زیادہ مستحکم تعمیر کا منصوبہ بنائیں۔