بیس سال بعد
1950 اور 1970 کے درمیان تقریباً 20 سال تک جاپان کا حال یہ تھا کہ وہ صنعتی ٹیکنالوجی کی اعلیٰ قسموں کو مغربی ملکوں سے حاصل کرتا تھا۔ کبھی اُدھار ، کبھی مانگ کر اور کبھی خرید کر۔ مگر آج جاپان کی اقتصادیات اپنی ذاتی بنیادوں پر قائم ہیں۔ جاپان اس حیثیت میں ہوگیا ہے کہ وہ نہ صرف مصنوعات کو بلکہ اپنی صنعتی مہارت کو بھی دوسرے ملکوں میں بھیج سکے۔
صنعت میں اپنی ترقی یافتہ تکنیکی صلاحیت کی بنا پر اس کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کی مدد کرکے ان کی دوستی حاصل کرسکے۔ مختلف ملکوں کی بڑی بڑی اسکیموں کا ٹھیکہ لے کر ان سے تجارتیں کرے۔ جاپانی ماہرین آج تھائی لینڈ میں آب پاشی کے جدید منصوبوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ وہ سنگا پور میں کمپیوٹر پروگرام کی تعلیم دے رہے ہیں۔ وہ جنوبی کوریا اور چین میں فولاد کے کارخانے تعمیر کر رہے ہیں۔ وہ شرق اوسط میں پٹروکیمیکل صنعتیں قائم کر رہے ہیں،وغیرہ۔
جاپانیوں نے ابتداء ً فولاد بنانا امریکیوں سے سیکھا تھا، اب وہ اس ہنر کو مزید ترقی دے کر اس کو خود امریکا کو برآمد کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ جاپان جو کسی وقت امریکا کا شاگر د تھا، اب اس نے کئی چیزوں، خاص طور پر مواصلات (کمیونیکیشن ) اور الیکٹرانکس میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ امریکا خود اپنے فوجی اہمیت کے شعبوں میں جاپان کی تکنیکی مدد حاصل کرنے کےلیے جاپان سے معاہدہ کررہا ہے۔ شاگرد اس قابل ہوگیا ہے کہ اپنے استاد کو سبق دے سکے۔
جاپان کے اس تجربہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایک اخباری مبصر (ہندوستان ٹائمز 11 جون 1981) نے لکھا ہے ٹیکنالوجی کا بہاؤ پہلے جاپان کے اندر تھا ، اب اس کا بہاؤ جاپان کے باہر ہے:
Now the flow is out instead of in.
جاپان20 سال تک صنعتی مغلوبیت پر راضی رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج اس کو صنعتی غلبہ کا مقام حاصل ہوگیا۔ اگر وہ اول دن سے غلبہ پر اصرار کرتا تو اس کے حصہ میں صرف یہ آتا کہ اس کی مغلوبیت کبھی ختم نہ ہو۔ ہر پانے کےلیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ ہر بلندی کے لیے کچھ پستی کو گوارا کرنا ہوتا ہے۔ یہی دنیا کا قانون ہے۔ جو لوگ دنیا کے اس قانون کے ساتھ موافقت کریں وہی خدا کی اس دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ اس قانون کے ساتھ موافقت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ ان کے حصہ میں صرف یہ آتا ہے کہ وہ ناکام ہو کر رہ جائیں اور اس کے بعد بے فائدہ طور پر دوسروں کو اپنی بربادی کا جھوٹا الزام دیتے رہیں۔