بے کاری
قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: إِنِّي لَأَرَى الرَّجُلَ، فَيُعْجِبُنِي، فَأَقُولُ: هَلْ لَهُ حِرْفَةٌ؟ فَإِنْ قَالُوا :لا؛ سَقَطَ مِنْ عَيْنِي.(المجالسة وجواهر العلم للدينوري، حديث نمبر 3005)يعني حضرت عمر فرماتے تھے کہ میں کسی آدمی کو دیکھتا ہوں اور وہ مجھے پسند آتا ہے مگر جب معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتا تو وہ میری نگاہوں سے گرجاتا ہے۔
یہی روایت ابن الجوزی نے تلبیس ابلیس میں ان الفاظ میں نقل کی ہے:
عَنْ مُحَمَّد بْن عَاصِم قَالَ بلغني أن عُمَر بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عنه كان إذا رأى غلاما فأعجبه سأل عنه هل لَهُ حرفة فَإِن قيل لا قَالَ سَقَطَ مِنْ عَيْنِي.(تلبيس ابليس، جلد 1، صفحه 252)يعني محمد بن عاصم کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر جب کسی نوجوان کو دیکھتے اور وہ انھیں اچھا معلوم ہوتا تو پوچھتے کیا اس کا کوئی کام ہے۔ اگر کہا جاتا کہ نہیں تو وہ ان کی نگاہ سے گرجاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بےکاری نہایت بری چیز ہے وہ آدمی کی تمام بہترین صلاحیتوں کو کھا جاتی ہے۔ بے کار آدمی بظاہر دیکھنے میں زندہ معلوم ہوتا ہے مگر حقیقتہً وہ ایک مرا ہوا انسان ہوتا ہے۔ اس کے اندر سے وہ تمام لطیف احساسات ختم ہوجاتے ہیں جو کسی انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بناتے ہیں۔
بے کاری کی ایک صورت وہ ہے جب کہ آدمی محنت اور مشقت کی چیزوں سے گھبراتا ہے اور اس کے اندر یہ صلاحیت موجود نہیں ہوتی کہ کوئی بے مشقت کا کام اسے مل جائے۔ چنانچہ وہ اپنے پسندیدہ کام کے انتظار میں بے کار پڑا رہتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی کو وراثت میں یا اور کسی اتفاقی سبب سے ایسے ذرائع معاش حاصل ہوجائیں جن کےلیے اس نے کوئی ذاتی کسب نہیں کیا تھا۔ مثلاً بنک میں جمع شدہ رقم۔ یا جائیداد جس کی آمدنی یا کرایہ اس کو اپنے آپ ہر ماہ ملتا رہے۔ اس قسم کی ہر صورت بے کاری کے صورت ہے اور وہ آدمی کےلیے قاتل ہے ، خواہ بظاہر وہ خوش پوش ہو اور چلتا پھرتا نظر آتا ہو۔
ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے کوئی جائز کام اختیار کرے اور صبح شام اپنے آپ کو اس میں مشغول رکھے۔ جس کے پاس کام کی مشغولیت نہیں اس کے پاس زندگی بھی نہیں۔ بے کار آدمی کو کبھی بھی آپ اعلیٰ انسان نہیں پائیں گے۔