بے معنی اچھل کود
یوپی کی ایک مسلم خاتون بیوہ ہو گئیں۔ ان کی تین چھوٹی لڑکیاں تھیں۔ ایک لڑکا تھا جو باپ کے انتقال کے وقت نویں کلاس میں پڑھ رہا تھا۔ خاتون نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے لڑکے کو انجینئر بنائے گی۔ اس نے شوہر کا پراویڈنٹ فنڈ خرچ کر کے اور خود بارہ بارہ گھنٹے روزانہ سلائی کا کام کر کے اپنے لڑکے کو پڑھانا شروع کیا۔
گھر کے حالات نے لڑکے کے اندر محنت کا جذبہ پیدا کیا۔ ہائی اسکول میں اس کو 71 فی صد نمبر ملے۔ انٹر میڈیٹ میں لڑکے نے 76 فی صد نمبر حاصل کیے۔ اس کے بعد خاتون نے ہمت کر کے اپنے لڑکے کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں انجینئرنگ میں داخل کر ا دیا۔ یہاں بھی لڑکا انتہائی محنت کے ساتھ پڑھتا رہا۔ انجینئرنگ کے پہلے سال سے لے کر چوتھے سال تک اس نے اس طرح پاس کیا کہ ہر سال اس کو 80 فی صد سے زیادہ نمبر ملتے رہے۔
لڑکے کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے خاتون کا یہ منصوبہ بہت مہنگا تھا۔ اس مدت میں گھر کا اثاثہ ختم ہو گیا مکان گروی رکھنا پڑا۔ رات دن سلائی کا کام کرتے کرتے خاتون کی آنکھیں خراب ہو گئیں۔
1981 اس لڑکے کا فائنل ائیر تھا۔ اگر وقت پر امتحان ہو جاتا تو لڑکا انجینئر بن جاتا۔ اس کی ماں نے اسی دن کی امیدمیں دس نہایت مشقت کے سال گزار دیے تھے۔ وہ اس امید میں جی رہی تھی کہ میرا لڑکا انجینئر بنے گا۔ پھر وہ کما کر گھر کا خرچ چلائے گا۔ قرضے ادا کرے گا۔ بہنوں کی شادی کروائے گا۔ اس کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا۔ مگر اس سال یونی ورسٹی کے لیڈر لڑکوں نے یونی ورسٹی میں ایسے ہنگامے شروع کیے کہ امتحان ہی نہ ہو سکے۔ خاتون کی دنیا بنتے بنتے اپنے آخری مقام پر پہنچ کر اجڑ گئی (حسب روایت احمد رشید شروانی مطبوعہ الجمعیۃ 23 جون 1981)
اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی کے مسائل کتنے نازک ہوتے ہیں۔ یہاں بے شمار مسائل ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہوتے ہیں کہ ایک کو چھیڑنے میں دوسرا متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے اجتماعی معاملات میں پڑنا صرف ان لوگوں کے لیے جائز ہے جو معاملات کو دور اندیشی کی نگاہ سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جو دوسرے کے سینے کا درد اپنے سینہ میں محسوس کریں۔ جن لوگوں کے اندر یہ دونوں صفات نہ ہوں وہ اگر اجتماعی اصلاح کے میدان میں کودتے ہیں تو وہ صرف جرم کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے واحد صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ خاموش رہیں۔ نہ یہ کہ احمقانہ اقدام کر کے مسائل میں اور اضافہ کرنے کا سبب بن جائیں۔