جرات مندی
احمد اور اقبال دونوں ایک ہی شہر میں رہتے تھے۔ احمد بی اے پاس تھا۔ جب کہ اقبال کی تعلیم صرف آٹھویں کلاس تک ہوئی تھی۔
ایک بار اقبال کو ایک سرکاری دفتر میں جانا تھا۔ وہ وہاں جانے لگا تو احمد بھی اس کے ساتھ چلا گیا۔ دونوں مذکورہ دفتر میں پہنچے۔ احمد نے دیکھا کہ اقبال وہاں مسلسل انگریزی بول رہا ہے۔ جب دونوں باہر نکلے تو احمد نے کہا کہ تم بالکل غلط سلط انگریزی بول رہے تھے۔ میں تو کبھی اس طرح بولنے کی ہمت نہیں کروں گا۔ اقبال کو احمد کے اس تبصرے سے کوئی شرمندگی نہیں ہوئی۔ اس نے پُر اعتماد لہجے میں جواب دیا :
’’غلط بولو تاکہ تم صحیح بول سکو۔ ‘‘
اقبال نے مزید کہا کہ تم اگرچہ بی اے ہو اور میں کچھ بھی نہیں ہوں مگر دیکھ لینا کہ میں انگریزی بولنے لگوں گا اور تم کبھی بھی نہ بول سکو گے۔
اس واقعہ کو اب بیس سال ہو چکے ہیں۔ اقبال کے الفاظ صد فی صد صحیح ثابت ہوئے۔ احمد آج بھی وہیں ہے جہاں وہ بیس سال پہلے تھا۔ مگر اقبال نے اس مدت میں زبردست ترقی کی۔ وہ اب بے تکلف انگریزی بولتا ہے اور بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اس کی گفتگو میں زبان کی غلطی پکڑسکیں۔
اقبال کے اس جرأت مند انہ مزاج نے اس کو بہت فائدہ پہنچایا۔ اس سے پہلے شہر میں اس کی ایک معمولی دکان تھی۔ مگر آج اسی شہر میں اس کا ایک بڑا کارخانہ قائم ہے۔ ’’ غلط بولو تاکہ تم صحیح بول سکو ‘‘ اس کے اپنے حق میں صد فی صد درست ثابت ہوا۔
اقبال کے اس طریقہ کا تعلق صرف زبان سے نہیں بلکہ زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ موجودہ دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو حوصلہ کے مالک ہوں جو بے دھڑک آگے بڑھنے کی ہمت کر سکیں۔ جو خطرہ مول لے کر اقدام کرنے کی جرأت رکھتے ہوں۔ اس دنیا میں غلطی کرنے والا ہی صحیح کام کرتا ہے۔ جس کو یہ ڈر لگا ہوا ہے کہ کہیں اس سے غلطی نہ ہو جائے وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔ اس کے لیے آگے کی منزل پر پہنچنا مقدر نہیں۔