دور کا راستہ
ترقی یافتہ ملکوں میں ٹیلی فون کا نظام نہایت معیاری ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس غیر ترقی یافتہ ملکوں میں اگرچہ ہر جگہ ٹیلی فون ہے مگر اس کا نظام درست نہیں۔ مثلاً ہندوستان میں اگر آپ مقامی ٹیلی فون کریں یا ایک شہر سے دوسرے شہر بات کریں تو طرح طرح کی خرابیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بر عکس اگر آپ دہلی سے لندن کے کسی نمبر پر ڈائل کریں تو آپ کو فوراً لائن مل جائے گی اور نہایت صاف طور پر گفتگوہو سکے گی۔
اس سلسلہ میں افریقہ کا ایک لطیفہ اخبار میں نظر سے گزرا۔ افریقہ کے ایک ملک میں کسی عورت نے گوشت کی مقامی دکان پر ٹیلی فون کرنا چاہا۔ کافی دیر تک کوشش کرنے کے باوجود اس کو نمبر نہیں ملا۔ اس عورت کی ماں لندن میں رہتی تھی۔ اس کے بعد اس نے لندن کے ٹیلی فون پر اپنی ماں کا نمبر ڈائل کیا۔ یہ نمبر اس کو فوراً مل گیا۔ اپنی ماں سے بات کرتے ہوئے مذکورہ عورت نے ضمناً کہا کہ وہ گوشت منگوانے کے لیے ایک گھنٹہ سے گوشت کی دکان پر ٹیلی فون ملانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر رابط قائم نہ ہو سکا۔ اس کی ماں نے کہا کہ اچھا میں یہاں سے ملاتی ہوں۔
چنانچہ اس کی ماں نے لندن سے افریقہ کی گوشت کی دکان کا ٹیلی فون نمبر ملایا۔ نمبر بلاتا خیر مل گیا۔ افریقہ کی گوشت کی دکان کو جو پیغام مقامی ٹیلی فون سے نہیں پہنچ سکا تھا۔ وہ لندن کے ٹیلی فون سے پہنچ گیا۔
یہ لطیفہ زندگی کی ایک حقیقت کو بتا رہا ہے۔ يه حقیقت ہے كه کبھی دور کا راستہ عملاً زیادہ قریب ہوتا ہے۔
بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ منزل پر پہنچنے کے لیے مختصر راستہ تلاش کرتے ہیں۔ وہ اپنے مطلوبہ نتیجہ کو حاصل کرنے کے لیے وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جو بظاہر جلد نتیجہ کو سامنے لانے والا ہو۔ مگر منزل تک جلد پہنچنے کے لیے صرف ’’ راستہ ‘‘ کو دیکھنا کافی نہیں ہے بلکہ ’’ سواری ‘‘ کو دیکھنا بھی ضروری ہے ، نتیجہ کو جلد حاصل کرنے کا تعلق صرف ظاہری اسباب سے نہیں ہے بلکہ بہت سے ان دوسرے اسباب سے ہے جو دکھائی نہیں دیتے۔
کبھی دور کا راستہ زیادہ قریب ہوتا ہے اور قریب کا راستہ زیادہ دور بن جاتا ہے۔