کام ہے، کام کرنے والے نہیں
مہاراشٹر کا ایک نوجوان رامیش دھوبی (22سال) بے روزگاری سے سخت پریشان تھا۔ مایوسی نے اس کی زندگی اس کی نظر میں بے قیمت بنا دی تھی۔ آخر کار ایک روز وہ موہدی اسٹیشن پہنچا۔ ’’میرے اس ہاتھ کی کیا ضرورت ہے جس کےلیے دنیا میں کوئی کام نہ ہو‘‘ یہ احساس اس کے ذہن پر چھایا ہوا تھا۔ اتنے میں اس کو ایک ٹرین آتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ ریلوے لائن کے کنارے کھڑا ہوگیا اور جیسے ہی ٹرین سامنے آئی اس نے اپنے دونوں ہاتھ پہیہ اور پٹری کے بیچ میں ڈال دئے۔ انجام ظاہر تھا۔ اس کے دنوں ہاتھ کٹ کر اس کے جسم سے الگ ہوگئے۔
مسافروں نے جب اس کا حال دیکھا تو اس کو لے کر فوراً اسپتال پہنچے اور اس کو ڈاکٹروں کے حوالے کیا۔ رامیش دھوبی سے پوچھا گیا کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ اس نے جو جواب دیا وہ انگریزی رپورٹنگ (ٹائمس آف انڈیا 14اگست 1981) میں ان الفاظ میں نقل ہواہے:
My hands are useless as I can find no work, and living is shameful without work.
جب میرے لیے کوئی کام نہیں تو میرے ہاتھ بھی بے کار ہیں۔ کام کے بغیر زندگی رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں۔
اخبار کی یہ خبر میں نے پڑھ کر ختم کی تھی کہ ایک صاحب کمرہ میں داخل ہوئے۔ انھوں نے اپنے حالات بتاتے ہوئے کہا کہ میرے پاس کافی کھیت ہیں اور نہر ہونے کی وجہ سے آب پاشی کا معقول انتظام ہے۔ محنت اور ذمہ داری کے ساتھ کام کیا جائے تو بآسانی ایک لاکھ روپیہ سالانہ کی پیدوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ اب تک میں خود کرتا رہا۔ مگر اب میرے پاس وقت نہیں۔ اور کوئی ایسا قابل اعتماد آدمی نہیں ملتا جس کے حوالے میں اپنا کام کرسکوں۔ اس لیے میں نے طے کیا ہے کہ میں اپنی زمینوں کو بیچ دوں۔
آج کی دنیا میں جس طرح بے شمار لوگ بے روزگار ی سے پریشان ہیں۔ اسی طرح یہ بھی واقعہ ہے کہ بےشمار لوگ اس مسئلہ سے دوچار ہیں کہ ان کے پاس کام ہیں مگر ایسے آدمی نہیں ملتے جو سلیقہ کے ساتھ کام کو سنبھال سکیں۔
ان دونوں واقعاتکوملاکر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ دنیامیں کام کی کمی نہیں بلکہ کام کرنے والوں کی کمی ہے۔ جو لوگ بے روزگار ہیں اگر وہ اپنے اندر صرف دو صلاحیت پیدا کر لیں تو روزگار خود انھیں تلاش کرے گا،نہ کہ وہ روزگار کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھریں۔ وہ دو صلاحیتیں ہیں — محنت اور دیانت داری۔