خوش خیالی حقیقت کا بدل نہیں
سڑک پر مجمع 21 نمبر کی بس کا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک بس آتی دکھائی دی اور سارے لوگ اس کی طرف دوڑ پڑے۔ ’’ اوہ! یہ تو 12 نمبر کی بس ہے ‘‘۔ بورڈ دیکھ کر ایک شخص بولا۔ ’’ 12 کو 21 کر لو اور چلے جاؤ ‘‘۔ دوسرے نے کہا۔
ظاہر ہے کہ یہ صرف مذاق تھا۔ کوئی شخص ایسا نہیں کرے گا کہ کھر یا مٹی لے کر بس پر اپنا مطلوبہ نمبر لکھے اور اس پر بیٹھ کر سمجھے کہ اب وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا ہے۔ یہ ہندسہ کا فرق نہیں ، حقیقت کا فرق تھا۔ اور حقیقت کے فرق کو ہندسہ کے فرق سے بدلا نہیں جا سکتا۔ یہ بات اپنی ذاتی زندگی کے معاملات میں ہر شخص جانتا ہے ، مگر عجیب بات ہے کہ ملت کے رہنما جب ملت کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اٹھتے ہیں تو وہاں وہ اس انتہائی معلوم حقیقت کو بھول جاتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہندسہ کو بدل کر وہ اُس کام کا کریڈٹ حاصل کر لیں جو اسباب کی اس دنیا میں صرف حقیقت کو بدلنے کے نتیجہ میں کسی کو ملتا ہے۔
ایک ایسا سماج جہاں امتیاز اور لیاقت کی بنیاد پر لوگوں کو درجات ملتے ہیں، ہم مراعات اور تحفظات کے عنوان پر کانفرنس کر رہے ہیں۔ ایک ایسا نظام جہاں علمی اور اقتصادی طاقت کے بل پر قوموں کے فیصلے ہوتے ہیں، ہم احتجاج اور مطالبات کے پوسٹر دیواروں پر چپکا رہے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں زبان وبیان نے بالکل نیا انداز اختیار کر لیا ہے، ہم اپنے روایتی کتب خانہ کے بورڈ پر’’دور جدید‘‘کا لفظ لکھنے کے لیے آرٹسٹ کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ ایک ایسا زمانہ جہاں عالمی ذہن نے سیاست کو سیکولر بنیادوں پر قائم کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے، ہم عوام کا ذہن بدلے بغیر بیلٹ بکس سے اسلامی نظام برآمد کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایسی آبادی جہاں اختلاف اور شکایت کے گہرے مادی اسباب موجود ہیں، ہم لفظی تقریروں کے کرشمے دکھا کر حالات کو درست کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ایک ایسے معاشرہ میں جہاں ہم تعلیم، اقتصادیات، باہمی اتحاد ہر لحاظ سے تمام گروہوں میں سب سے پیچھے ہیں، ہم جلسوں اور کنونشنوں کے ذریعہ ملک کی قسمت بدلنے کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ ایک ایسا جغرافیہ جہاں ہمارے پاس اپنے تحفظ کی بھی طاقت نہیں، ہم’’حریف کو نقصان پہنچاؤ‘‘کا طریق کار اختیارکر کے با عزت زندگی حاصل کرنے کی تجویزیں پیش کر رہے ہیں۔ اس قسم کی تمام باتیں اسی طرح بے معنی ہیں جس طرح 12 نمبر کی بس پر 21 نمبر لکھ کر اپنی منزل کی طرف سفر شروع کرنا۔
موجودہ دنیامیں ہر چیز ممکن بھی ہے اور نا ممکن بھی۔ کسی چیز کو اگر اس کے فطری طریقہ سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کے لیے ضروری اسباب فراہم کر دئے جائیں تو اس کا حصول اسی طرح ممکن ہو جاتاہے جیسے رات پوری ہونے کے بعد سورج کا نکلنا۔ لیکن اگر فطرت کے مقررہ طریقہ سے انحراف کیا جائے اور مطلوبہ چیز کے مطابق ضروری اسباب جمع نہ کیے جائیں تو اس کے بعد ناکامی اتنی ہی یقینی ہو جاتی ہے جتنی پہلی صورت میں کامیابی۔ عالمِ فطرت پر یہ انسان کا حق ہے کہ وہ اس کو کامیاب کرے۔ مگر وہ کامیاب اس کو کرتا ہے جو اس کے مقررہ شرائط کو پورا کرنے کے لیے تیار ہو۔