اپنی کوشش سے
نفسیات کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان پیدائشی طور پر جن صلاحیتوں کا مالک ہے عام طور وہ ان کا صرف دس فی صد حصہ استعمال کرتا ہے۔ اس تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے ہار ورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر ولیم جیمس نے کہا—’’ جو کچھ ہمیں بننا چاہیے وہ کچھ ہم بننے کے لیے تیار نہیں‘‘۔ ہم کو دوسروں سے شکایت ہے کہ وہ ہم کو ہمارا حصہ نہیں دیتے۔ مگر سب سے پہلے ہم کو خود اپنے آپ سے شکایت ہونی چاہیے کہ قدرت نے پیدائشی طور پر ہمارے لیے دنیا میں جو ترقیاں اور کامیابیاں مقدر کی تھیں ، ہم اس کے مقابلہ میں ایک بہت کمتر زندگی پر قانع ہو کر رہ گئے ہیں۔
ہر انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے خود اپنی طرف دیکھے۔ کیوں کہ انسان آپ ہی اپنا دوست بھی ہے اور آپ ہی اپنا دشمن بھی۔ ا ٓدمی کے باہر نہ اس کا کوئی دوست ہے اور نہ کوئی اس کا دشمن۔ آدمی اپنی امکانیات کو استعمال کر کے کامیابی حاصل کرتا ہے اور جب وہ اپنی امکانیات کو استعمال نہ کرے تو اسی کا دوسرا نام ناکامی ہے۔
تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ کوششوں کا استعمال صحیح رخ پر ہو۔ غلط رخ پر کوشش کرنا اپنی قوتوں کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔
قدیم انسان کے نزدیک دولت مند بننے کی صورت صرف ایک تھی۔ وہ یہ کہ لوہے کو سونا بنایا جائے۔ وہ قیمتی چیز کے نام سے صرف سونے کو جانتا تھا۔ بے شمار لوگ ہزاروں سال تک لوہے کو سونا بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر ان کے حصہ میں بالآخر اس کے سوا اور کچھ نہ آیا کہ اپنے وقت اور پیسہ کو ضائع کریں اور پھر ایک دن حسرت کے ساتھ مر جائیں۔
مگر خدا کی دنیا میں ایک اور اس سے زیادہ بڑا امکان موجود تھا۔ اور وہ تھا لوہے کو مشین میں تبدیل کرنا۔ موجودہ زمانہ میں مغربی قوموں نے اس راز کو جانا اور اپنی محنتیں اس رخ پر لگا دیں۔ انھوں نے لوہے کو مشین میں تبدیل کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سونے اور چاندی سے بھی زیادہ بڑی مقدار میں دولت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔