اعتراف

اردو زبان کے ایک استاد کلاس میں غزل پڑھا رہے تھے۔ اس درمیان میں ایک مصرعہ آیا جو کتاب میں اس طرح چھپا ہوا تھا:

پنجۂ سل سے کھلیں گے عقدهٔ گیسوئے دوست

استاد نے اس مصرعہ کی تشریح ان الفاظ میں کی— پنجۂ سل کا مطلب ہے سل کا پنجہ۔ كھلیں گے ، یعنی وا ہو جائیں گے۔ عقدہ یعنی گرہ۔ گیسو ئے دوست، یعنی محبوب کے گیسو۔ مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ محبوب کے گیسو پنجۂ سل سے کھل جائیں گے۔

طلبہ حیرانی میں تھے۔ کیوں کہ استاد کی مذکورہ تشریح کے باوجود مصرعہ کا مطلب واضح نہیں ہوا تھا۔ انھوں نے نظم کے الفاظ کو نثر میں دہرا دیا تھا۔ اتنے میں کلاس کا ایک ذہین طالب علم اٹھا۔ اس نے کہا :

’’ سر ، میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں ‘‘

’’ کہو ‘‘

’’ سر ، یہ شاید طباعت کی غلطی ہے۔ میرے خیال سے یہ پنجۂ سل نہیں بلکہ پنجۂ شل ہے۔ اور شل کے معنی ہیں بے جان۔ کنگھا انسانی پنجہ کے مشابہ ہوتا ہے۔ بے جان ہونے کی وجہ سے شاعر نے اس کو پنجۂ شل کہا۔ شاعر افسوس کر رہا ہے کہ ہماری جاندار انگلیاں تو محبوب کی زلف کو سنوار نہ سکیں۔ اور کنگھا جس کی انگلیاں بے جان ہیں اور وہ گویا پنجۂ شل ہے ، اس کی خوش بختی دیکھو کہ اس نے زلف محبوب کے بل کھول کر اس کو سنوار دیا ‘‘۔

طالب علم کی اس وضاحت کے بعد کلاس کے تمام طلبہ خوش ہو گئے۔ ان کو محسوس ہوا کہ استاد کی تشریح کے باوجود جو مصرعہ بد ستور نا قابل فہم بنا ہوا تھا اس کو طالب علم کی تشریح نے قابل فہم بنا دیا ہے مگر استاد محترم اپنی ہار ماننے والے نہیں تھے۔ انھوں نے فوراً کہا:

درست، درست۔ پنجۂ سل اور پنجۂ شل ایک ہی بات ہے۔

حقیقت کھل جانے کے بعد آدمی اگر اس کا اعتراف نہ کرے تو گویا وہ چاہتا ہے کہ اپنے آپ کو بڑا اور حقیقت کو چھوٹا ثابت کرے۔ مگر چوں کہ امر واقعہ اس کے خلاف ہے۔ اس لیے عملاً صرف یہ ہوتا ہے کہ آدمی خودچھوٹا ہو کر رہ جاتا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom