کمزوری نعمت ثابت ہوئی
گاندھی جی اپنی کتاب تلاش حق (My Experiments with Truth) میں لکھتے ہیں کہ وہ پیدائشی طور پر شرمیلے تھے۔ ان کا یہ مزاج بہت عرصہ تک باقی رہا۔ جب وہ تعلیم کے لیے لندن میں تھے تو وہ ایک ویجیٹیرین سوسائٹی کے ممبر بن گئے۔ ایک بار انھیں سوسائٹی کی میٹنگ میں تقریر کے لیے کہا گیا۔ وہ کھڑے ہوئے۔ مگر کچھ بول نہ سکے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اپنے خیالات کو کس طرح ظاہر کریں۔ بالآخر وہ شکریہ کے چند کلمات کہہ کر بیٹھ گئے۔ ایک اور موقع پر ان کو مدعو کیا گیا کہ وہ سبزی خوری کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کریں۔ اس بار انھوں نے اپنے خیالات ایک کاغذ پر لکھ لیے۔ مگر جب وہ کھڑے ہوئے تو وہ اپنا لکھا ہوا بھی نہ پڑھ سکے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ایک شخص نے مدد کی اور ان کی لکھی ہوئی تحریر کو پڑھ کر سنایا۔
گاندھی جی نے وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد بمبئی میں پریکٹس شروع کی۔ مگر یہاں بھی ان کا شرمیلا پن ان کے لیے رکاوٹ بن گیا۔ پہلا کیس لے کر جب وہ جج کے سامنے کھڑے ہوئے تو حال یہ ہواکہ ان کا دل بیٹھنے لگا اور وہ کچھ بول نہ سکے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے موکل سے کہا کہ میں تمھارے کیس کی وکالت نہیں کر سکتا۔ تم کوئی دوسرا وکیل تلاش کر لو۔
بظاہر یہ سب کمی کی باتیں ہیں۔ مگر گاندھی جی لکھتے ہیں کہ یہ کمیاں بعد کو میرے لیے بہت بڑی نعمت (Advantage) ثابت ہوئیں۔ اس سلسلے میں ان کے الفاظ یہ ہیں :
My hesitancy in speech, which was once an annoyance is now a pleasure, Its greatest benefit has been that it has taught me the economy of words. I have naturally formed the habit of restraining my thoughts. And I can now give myself a certificate that a thoughtless word hardly ever escaped my tongue or pen.
بولنے میں میری یہ ہچکچاہٹ جو کبھی مجھے تکلیف دہ معلوم ہوتی تھی ، اب وہ میرے لیے ایک مسرت ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو اکہ اس نے مجھے مختصر الفاظ میں بولنا سکھایا۔ میرے اندر فطری طور پر یہ عادت پیدا ہو گئی کہ میں اپنے خیالات پر قابو رکھوں۔ اب میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بمشکل ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی لا یعنی لفظ میری زبان یا قلم سے نکلے۔
گاندھی جی اپنی اس خصوصیت میں مشہور ہیں کہ وہ بہت سوچی سمجھی بات بولتے تھے اور سادہ اور مختصر الفاظ میںکلام کرتے تھے۔ مگر یہ امتیازی خصوصیت ان کو صرف ایک غیر امتیازی خصوصیت کے ذریعہ حاصل ہوئی۔ وہ یہ کہ وہ اپنے بڑھے ہوئے شرمیلے پن کی وجہ سے ابتداء ً لوگوں کے سامنے بول ہی نہیں پاتے تھے۔