زبان درازی
سقراط کا قول ہے۔ اگر تم اتنے زبان دراز ہو کہ تمہاری زبان درازی کے مقابلہ میں کوئی تم سے جیت نہ سکے تو تم کبھی غریبوں کیسا تھ ہمدردی نہیں کرسکتے۔
بظاہر یہ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے کہ زبان درازی کا غریبوں کے ساتھ ہمدردی سے کیا تعلق۔ لیکن گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو ان میں بہت گہرا تعلق ہے۔ غریب کے ساتھ ہمدردی وہی شخص کرسکتا ہے جو حق کا اعتراف کرنا جانتاہو، خواہ اس حق کا تعلق ایک غریب آدمی سے کیوں نہ ہو۔
ایک واقعہ سے اس کی بخوبی وضاحت ہوجائے گی۔ ایک زمیندار نے اپنا آم کا باغ کسی باغبان کے ہاتھ فروخت کیا، جب درختوں میں پھل لگے تو آندھی آئی۔ اس آندھی میں بہت سے پھل گرگئے۔ باغبان کو اندیشہ ہوا کہ وہ پھلوں کی فروخت سے پوری قیمت حاصل نہ کرسکے گا اور اس کو نقصان ہوگا۔ اس نے ٹوٹے ہوئے آم ایک ٹوکری میں رکھے اور ان کو لے کر زمیندارکے پاس گیا۔ اور کہا کہ دیکھئے آندھی کی وجہ سے کافی پھل گرگئے ہیں۔ اور ہم کو نقصان کا اندیشہ ہے اس لیے آپ باغ کی قیمت میں کچھ کمی کردیں۔
زمیندار نے یہ سنا تو بگڑ کر کہا جب تم نے ہمار اباغ خرید اتھا اس وقت تم کو یہ معلوم نہ تھا کہ باغ کے گرد کوئی ایسی اونچی دیوار کھڑی ہوئی نہیں ہے جو آندھی اور باغ کے درمیان روک بن سکے۔ غریب باغبان مایوس ہو کر چلا گیا۔
زمیندا ر کے ایک دوست اس وقت زمیندار کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اور زمیندار او ر باغبان کی پوری بات سن رہے تھے۔ جب باغبان چلا گیا تو انہوں نے زمیندا ر سے کہا۔ تم بہت سنگدل معلوم ہوتے ہو ، غریب آدمی پر رحم کرنا نہیں جانتے۔ زمیندار صاحب نے یہ سن کر کہا۔ آپ جیسے تعلیم یافتہ لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان کو رزق دیتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ رزق دینے والا خدا ہے، وہ بہرحال ہر ایک کو اس کا رزق پہنچاتا ہے۔
طاقتور کے مقابلہ میں آدمی زیادہ بول نہیں پاتا۔ مگر جب کمزور سے معاملہ ہو تو وہ خوب زبان درازی دکھاتا ہے۔ اس کی یہ زبان درازی اس کو یہ موقع نہیں دیتی کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ معاملہ کو سمجھے اور حق کو مان کر اس کے مطابق وہ کرے جو اسے کرنا چاہیے۔